ایک اور معصوم کا قتل

قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبان خنجر‘لہوپکارے گا آستیں کا
ایک اور معصوم کا قتل
ملک بھر میں جیسے جیسے ہجومی تشدد کے خلاف برہمی پیدا ہوتی جا رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ ویسے ویسے ہی اس تشدد کو ہوا بھی مل رہی ہے ۔ مسلسل ایسے واقعات پیش آتے جا رہے ہیں جن میں معصوم اور بے گناہ افراد کو جو ‘ معمولی سے کاروبار کے ذریعہ اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں ‘ صرف شبہات کی بنیاد پر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ ان واقعات میں مسلسل اضافہ انتہائی تشویشناک ہے اور ملک میں نراج اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ لا قانونیت کو عروج حاصل ہو رہا ہے ۔ گئو دہشت گرد خود کو ماورائے قانون اتھاریٹی منوانے میں لگے ہوئے ہیں اور حکومتوں کی جانب سے بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز ان کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بن رہا ہے ۔ راجستھان کے الوار ضلع میں ایسے واقعات نے تو مزید شدت اختیار کرلی ہے ۔ پہلے تو وہاں پہلو خان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا اور پھر اب دو دن قبل ایک اور واقعہ پیش آیا جہاں ایک اور بے گناہ مسلمان کو محض گائے کی اسمگلنگ کے شبہ میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا جبکہ دوسرا ایک اور شخص خوش قسمت تھا جو ان دہشت گردوں سے کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا ۔ ایسے واقعات کا آغاز اترپردیش میں دادری کے مقام سے ہوا تھا جہاں محمد اخلاق کو اس کے گھر میں گھس کر قتل کیا گیا ۔ اس کے بعد پھر اس طرح کے واقعات ان تمام ریاستوں میں پیش آنے شروع ہوگئے جہاں بی جے پی کا اقتدار ہے اور جہاں بھگوا تنظیموں اور کارکنوں کو ماورائے قانون اتھاریٹی کی شکل دی جانے لگی ہے ۔ اگر کوئی مسلمان کوئی خلاف قانون کام کرتا بھی ہے تو ان دہشت گردوں کو کوئی حق نہیں پہونچتا کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کریں یا قانون اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں موت کے گھاٹ اتارا جائے ۔ اس کا تصفیہ اور فیصلہ کرنے کیلئے ملک میں عدالتیں موجود ہیں ‘ قانون موجود ہے اور نظام انصاف موجود ہے جن کی مدد سے خاطیوں کو سزائیں دلائی جاسکتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے ۔
اترپردیش ہو کہ راجستھان ہو ‘ مدھیہ پردیش ہو کہ جھارکھنڈ ہو ‘ چھتیس گڑھ ہو کہ آسام ہو بے شمار ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے اور وہاں مسلمانوں کا عرصہ حیات کسی نہ کسی بہانے سے تنگ کیا جا رہا ہے ۔ صورتحال اس قدر ابتر ہوگئی ہے کہ بے گناہ مسلمانوں کو سر عام قتل کرنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دلانے کی بجائے مرکزی وزرا ان ملزمین کی گلپوشی کرتے ہوئے ایک خاموش پیام دے رہے ہیں کہ ان کی حرکتوں اور جرائم کو حکومتوں کی تائید اور پشت پناہی حاصل ہے ۔ یہ صورتحال واقعتا تشویش کا باعث ہے اور اس میں کسی طرح کی نرمی پیدا ہونے کی بجائے حالات مزید ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ کسی نہ کسی ریاست اور کسی نہ کسی شہر میں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا معمول بنتا جا رہا ہے ۔ کہیں مسلمان گئو کشی یا گائے کی اسملنگ کے نام پر نشانہ پر ہیں تو کہیں دلتوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے ۔ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ہوں یہ سب بالواسطہ طور پر ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کرتی نظر آ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور ان میں کسی طرح کی کمی نہیں آر ہی ہے ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیاں بھی ایسا لگتا ہے کہ اپنی پیشہ ورانہ دیانت اور مہارت کو ترک کرکے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے ہی کو اپنا فریضہ سمجھ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایجنسیاں بھی مجرمین کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔
ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ سپریم کورٹ نے یہ واضح کیا ہے کہ ہجومی تشدد کو روکنے کی ذمہ داری مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ہے لیکن مرکزی اور ریاستی حکومتیں ایسالگتا ہے کہ اپنے ایجنڈہ اور اپنے عزائم کی تکمیل میں قانون کی بھی پرواہ کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی وہ سپریم کورٹ کے احکام کی پابندی کرتی نظر آ رہی ہیں۔ یہ واقعات ایسے ہیں جن کے نتیجہ میں ملک کے حالات متاثر ہونے کے اندیشے لاحق ہوتے ہیں۔ نراج اور بدامنی کی کیفیت کسی بھی ملک یا کسی بھی سماج کیلئے اچھی نہیں ہوتی اور اس کا فوری طور پر ازالہ ہونا چاہئے ۔ جو عناصر مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنانے کی مہم پر عمل پیرا ہیں ان کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہئے اور انہیں کیفر کردار تک پہونچانا چاہئے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر حالات کے بگڑنے کی ذمہ داری بھی حکومتوں پر عائد ہوگی اور وہ سپریم کورٹ کے احکام کو نظر انداز کرنے کی بھی مرتکب ہونگی ۔