ایک اور سر قلم …

بالائے طاق رکھ کے دواؤں کی شیشیاں
یادِ صحت میں روز مچلتا رہا مرض
ایک اور سر قلم …
مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے بشمول مغرب کی جانبدارانہ پالیسیوں سے پیدا ہونے والی نفرت انگیز لہر نے دولت اسلامیہ کی شکل میں ایک ایسی طاقت کو وجود میں لایا ہے جس کے تعلق سے متضاد رائے پائی جاتی ہے۔ عالم اسلام کو بدنام کرنے کی غرض سے مغربی طاقتیں جس قدر تیزی سے گھناونی سازشیں کرہی ہیں، دولت اسلامیہ کو بھی اس کا ایک حصہ سمجھا جارہا ہے۔ اسلام کے نام پر جان لینے کے واقعات سراسر غیراسلامی تعلیمات کے علمبرداروں کی کارستانی ہوسکتی ہے۔ دولت اسلامیہ نے امریکہ کے دو صحافیوں کا سر قلم کرنے کے بعد اب برطانیہ کے ایک امدادی ورکر کا سر قلم کرکے دوسرے مغویہ برطانوی شہری کو بھی جان سے مار دینے کی دھمکی دی ہے۔ یہ دونوں ورکرس شام میں گرفتار کرلئے گئے تھے۔ دولت اسلامیہ ایک کے بعد دیگر مغربی باشندوں کا سرقلم کرکے یہی ثابت کرنا چاہتا ہیکہ وہ شدت پسندی کے ذریعہ اپنا سکہ جما کے حکومت کو بے بس کرے۔ اب تک امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں نے داعش یا آئی ایس کے بارے میں ایسا موقف اختیار نہیں جو ایک دہشت گرد گروپ کے تعلق سے کیا جاتا ہے۔ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت کے دوران وجود میں آنے والی یہ طاقت شام اور عراق کے بڑے علاقہ پر قابض ہے۔ اس کے خلاف تمام مغربی ملک صف آراء ہورہے ہیں پھر بھی اس کی قاتلانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے مغویہ شہری ڈیوڈ ہنیز کی ہلاکت کی پرزور مذمت کی ہے۔ مغرب کی نظر میں دولت اسلامیہ کی کارروائی برائی کا واضح فعل ہے تو اس برائی کو بڑھاوا دینے والے ذمہ دار کون ہیں۔ اس کا مغرب کو ہی محاسبہ کرنا ہے۔ امریکہ نے اب تک ڈرامائی موقف اختیار کیا ہے۔ داعش نے بڑی تعداد میں اپنے ارکان تیار کرلئے ہیں۔ ساری دنیا میں دہشت گرد تنظیموں میں داعش کی طاقت زیادہ بتائی جارہی ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد بھی کویت کی فوج سے زیادہ بتائی گئی ہے جنہیں عالمی معیارات کے ہتھیاروں کی تربیت حاصل ہے۔ صدر امریکہ بارک اوباما بھی داعش کی افرادی قوت کو دیکھ کر حیران ہیں تو یہ سب کچھ دنیا والوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ اوباما نے داعش کا مقابلہ کرنے کیلئے شام کی سرکاری فوج کو تربیت دینے کیلئے 500 ملین ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا۔ شام میں بدلتی جنگی حالت میں امریکہ کے صدر کا یہ قدم مزید پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے۔ امریکہ نے شام کی سرکاری فوج کو تربیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم یہ تربیت سست رفتاری سے جاری ہے۔ اس ٹریننگ کی تکمیل کیلئے دو سال درکار ہوں گے جبکہ داعش تیزی سے پیشقدمی کررہا ہے۔ عالم اسلام میں خاص کر عرب ملکوں نے داعش کو ایک غیراسلامی تنظیم قرار دیا ہے چونکہ اس کی حرکتیں اسلامی تعلیمات کے مغائر ہیں۔ اس تنظیم کی طاقت تو نہ صرف امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں مفادات اور اس کے دوست ممالک کے لئے بلکہ ممکنہ طور پر امریکہ کے لئے بھی خطرہ سمجھا جارہا ہے۔ اس خطرہ کو ختم کرنے کیلئے وسیع اتحاد کی تیاری کا مطلب پھر سے دنیا میں بڑے پیمانے پر خونریزی برپا کرکے مسلم ملکوں پر بمباری کی جائے گی۔ شام اور عراق کی سیاسی، معاشی کیفیت افسوسناک ہے۔ ان نازک حالات میں داعش کی کارروائیاں مسلم ملکوں میں مزید تباہی لا سکتی ہیں۔ دولت اسلامیہ کو تباہ کرنے کیلئے صدر امریکہ کا چار نکاتی پروگرام مزید تباہی لائے گا۔ اس پالیسی کے تحت فضائی حملے، زمینی کارروائی کے ساتھ فوج کو دہشت گرد سرگرمیوں کو کچلنے کیلئے طاقت کے استعمال کی کھلی چھوٹ دی جائے گی تو انسانی جانوںکا شدید اتلاف ہوگا۔ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ آسٹریلیا بھی ایک خون کے بدلے 100 خون کرنے کی نیت سے متحد ہورہے ہیں تو اس خون ریزی کا نتیجہ تباہی ہی نکلے گا۔ القاعدہ، صدام حسین، لیبیا، مصر، فلسطین جیسے خون ریز واقعات کا نتیجہ کیا نکلا۔ امریکہ آج بھی عدم سلامتی اور خطرات کے سایہ میں جی رہا ہے تو اس کو اپنی ابتر پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہوگی۔ صدر اوباما نے داعشق کا خاتمہ کرنے کیلئے بنائی گئی پالیسی کو قابل عمل پالیسی قرار دیا ہے مگر یہ غیر واضح ہیکہ آیا امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کی چند فضائی کارروائیوں سے دولت اسلامیہ کا صفایا ہوسکے گا۔ امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کی نئی حکمت عملی کی ایک بڑی آزمائش عراق اور شام میں ہوگی۔ دن بہ دن مشکل سے مشکل آزمائش کا شکار مغرب کو مزید احمقانہ حرکتیں کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ مغرب کو پرامن مقاصد کی حامل حکمت عملی اور پالیسی پر گامزن ہونے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب بڑی طاقتیں ظلم و زیادتیوں، غیرجانبدارانہ پالیسیاں بنانے کا چلن ترک کردیں۔