ایودھیا اراضی ملکیت تنازعہ: دستوری بنچ کی تشکیل جدید

۔29 جنوری کو سماعت کیلئے 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس بھی شامل
نئی دہلی۔/25 جنوری، ( سیاست ڈاٹ کام ) ایک نئی 5 ججس پر مشتمل دستوری بنچ آج سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دی گئی تاکہ 29 جنوری کو سیاسی طور پر حساس رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد اراضی ملکیت تنازعہ کی سماعت کرسکے۔ یہ بنچ دوبارہ اس لئے تشکیل دی گئی ہے کیونکہ جسٹس یو ڈی للت نے جو اصلی بنچ کے ایک رکن تھے 10جنوری کو مقرر سماعت سے دوری اختیار کرلی۔ ان کے اس فیصلہ کی وجہ سے سابق چیف منسٹر یو پی کلیان سنگھ نے اس معاملہ سے متعلق 1997 میں دوبارہ بنچ تشکیل دینے کے احکام جاری کئے تھے۔ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی ، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر پر یہ بنچ مشتمل ہوگی۔ جسٹس ایچ وی رمنا جو گزشتہ سماعت میں 10 جنوری کو اس بنچ میں شامل تھے اب دوبارہ بنچ کے رکن ہیں۔ جسٹس بھوشن بھی بنچ کے نئے رکن ہیں۔

ایک نوٹس سپریم کورٹ کی رجسٹری نے مختلف سیاسی پارٹیوں کو روانہ کرتے ہوئے کہا کہ ایودھیا تنازعہ کے معاملہ کی سماعت جمعرات کے دن 29 جنوری 2019 کو ہوگی۔ چیف جسٹس کی عدالت میں دستوری بنچ کے اجلاس پر جس میں چیف جسٹس آف انڈیا بھی شامل ہوں گے اور ان کے علاوہ جسٹس ایس اے بوبڑے اور جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر سماعت کریں گے۔ جسٹس بھوشن اور جسٹس نذیر تین رکنی بنچ کے رکن رہ چکے ہیں جبکہ چیف جسٹس دیپک مشرا تھے جو اب خدمات سے سبکدوش ہوچکے ہیں اُن کی سبکدوشی 27 ستمبر 2018 کو عمل میں آئی ہے۔پانچ رکنی دستوری بنچ نے 1994 میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس مقام پر مسجد کا ہونا زیر غور نہیں ہے اور نہ یہ فیصلہ مسجد کے بارے میں ہے بلکہ اس کا تعلق اسلامی ملکیت سے ہے۔ یہ معاملہ ایودھیا اراضی تنازعہ کے سلسلہ میں اُٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ جسٹس نذیر نے فیصلہ سنایا تھا جو اکثریتی فیصلہ کے برعکس تھا۔ تاحال 14اپیلیں سپریم کورٹ کے 2010 کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرتے ہوئے داخل کی جاچکی ہیں۔ اس مقدمہ کے تین فریقین میں سنی وقف بورڈ ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا شامل ہیں۔