این ڈی اے کا ڈنر

این ڈی اے کے ڈنر نے ہندوستانی سیاست اور قومی حکمرانی کی سمت طئے کردی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات 2019 کے آج نتائج آنے کے بعد قومی سطح پر این ڈی اے کا موقف بھی واضح ہوجائے گا ۔ ڈنر ڈپلومیسی کے ذریعہ بی جے پی صدر امیت شاہ نے بی جے پی کی حلیف پارٹیوں کو نتائج سے قبل صرف اگزٹ پولس کی پیش قیاسیوں پر یکجا کیا ۔ ڈنر میں شریک تقریبا 3 درجن حلیف پارٹیوں نے نریندر مودی کی شان میں قصیدہ خوانی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ این ڈی اے کا حصہ بننے والی پارٹیوں نے بظاہر ملک کے مفاد میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی بات کی ہے لیکن یہی این ڈی اے کے ساتھی گذشتہ پانچ سال کے دوران مودی حکومت کی مخالف عوام پالیسیوں کا ساتھ دینے کے لیے اپنے نظریات اور پالیسیوں کو بالائے طاق رکھا تھا ۔ حکمرانی کی تمام زیادتیوں اور غلطیوں پر چشم پوشی اختیار کرنے والی یہ پارٹیاں اگزٹ پولس کی پیش قیاسی پر خوش فہمی کا شکار ہوچکی ہیں ۔ این ڈی اے کو ہندوستان کی اصل روح قرار دیتے ہوئے امیت شاہ نے آئندہ 24 گھنٹوں کے لیے ایک خوشگوار سماں باندھ دیا ہے ۔ اصل نتائج تو آج سامنے آئیں گے کون کس کی چھت پر بیٹھے گا ۔ ٹی وی چیانلوں کے کوے ’ جھوٹ بولے کوا کاٹے ‘ کے گیت گاتے ہوئے کس کے سیاسی چھت پر بیٹھیں گے ۔ یہ چند گھنٹوں میں دکھائی دیں گے ۔ اس حقیقت سے قبل این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں نے اپنے رائے دہندوں سے حاصل کردہ ووٹ کے ساتھ انصاف کرنے کی فکر کرنے کی بجائے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی ضیافت کے مزے لوٹتے ہوئے مودی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کو بھی فراموش کردیا ۔ ان پارٹیوں نے اپنا اپنا چاند سا چہرہ دکھاتے ہوئے نریندر مودی کو خوش کیا ۔ ماسوائے غریب عوام ان پارٹیوں نے اپنے آقاؤں کے پیر دھوکر دھن ہونے کا مظاہرہ کیا ہے ۔

ان کا یہ رویہ ہندوستان کے غریب عوام کے ساتھ نئے نئے مذاق کی شکل میں سامنے آتا رہا ہے ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ یہ غریب عوام اپنے لیڈروں کو بار بار آزما کر بھی ان کے ہی جال میں پھنستے آرہے ہیں ۔ دنیا بھر میں موجود جمہوری ملکوں کے رائے دہندوں کا شعور بلندیوں کو چھو رہا ہے مگر ہندوستانی رائے دہندے ہنوز اپنے سازشی سیاستدانوں کے لچھے دار باتوں میں ہی پھنسے ہوئے ہیں ۔ بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے ۔ اس نے عوام کو بھوکا رکھ کر ان پر حکومت کرنے کا ہنر دکھانے والے دوبارہ اقتدار کی آرزو میں اکٹھا ہو کر جشن منایا ہے ۔ ان کا یہ جشن دیرپا ثابت نہ ہوسکے تو ہندوستانی رائے دہندوں کے اندر شعور جاگنے کا ثبوت ملے گا ۔ ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ اس ملک میں رائے دہندوں کو بیدار ہونے کے لیے کسی خاص گھڑی یا بڑی مصیبت کا انتظار ہے ۔ 2014 کے انتخابات کے بعد یہی این ڈی اے پارٹیوں نے مودی حکومت کے ہر پالیسی فیصلہ پر خاموشی اختیار کر کے عوام کے آرزوں کا جنازہ نکالا تھا ۔ اس حقیقت کے باوجود عوام نے اپنے لیڈروں کی غلطیوں کو معاف کردیا ۔ این ڈی اے کے ڈنر کے سامنے اپوزیشن کا اتحاد فاقہ کشی کا شکار نظر آنے لگا ۔ ان کا نقارہ وقت اگرچہ کہ آج بجنے والا ہے اگر اس نقارہ کی گونج اپوزیشن کے کانوں کو سریلی لگے تو پھر این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں کا ڈنر زہر میں تبدیل ہوجائے گا ۔ کل تک مزے لے کر لقمے نگلنے والے یہ قائدین اپنا چولا اس تیزی کے ساتھ تبدیل کریں گے کہ بی جے پی کے کرتا دھرتا ڈھیر ہوجائیں گے ۔ عالم شکست خوردگی میں وہ اپنے زعفرانی کھنڈوا سے گردن ناپنے کے لیے مجبور ہوجائیں گے ۔ شکست کا خوف رکھنے والی اپوزیشن جماعتوں کو صرف انتظار ہے ۔ اس گھڑی کا جن میں این ڈی اے اتحاد کی تصویر سے یو پی اے اتحاد کا رنگ جھلکنے لگے گا ۔ این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں نے تو ماقبل نتائج بی جے پی کے ڈنر کو ہی غنیمت جان کر ہی سیر کرلی ہے ۔ یوں تو ایک سیاستداں اپنے کردار و عمل کی بنیاد پر سیاست میں اپنی جگہ و مقام بناتا ہے لیکن این ڈی اے کے اندر موجود سیاستدانوں نے اپنے مفادات کی پوجا کرتے ہوئے مقام بنایا ہے ۔ بی جے پی کی خاص حلیف پارٹیاں جیسے شیوسینا نے تمام برسوں تک بی جے پی کی پالیسیوں کی مخالفت کی اور تنقیدوں کا نشانہ بنایا لیکن آج زبان پر کوئی شکایت ہی نہیں آئی ۔ یہ بھی ایک سیاسی فطرت کا افسوسناک مشاہدہ ہے ۔
کاش عوام اس کو محسوس کرتے کو آج این ڈی اے کا یہ ڈنر عوام و ملک کی بھلائی کے حق میں ہونے کا ثبوت دیتا ۔ لیکن اس سیاست میں جو ملاوٹ ہوچکی ہے اس کے نتائج بھی ملاوٹ شدہ ہی نکلیں گے اور نتائج معلق ہوں تو پھر این ڈی اے کا ٹولہ کمزور پڑ جائے گا اور باوقار سیاست کی پہچان رکھنے والا گروپ سامنے آئے گا ۔۔