این ڈی اے حکومت اور عدلیہ

مرکز کی این ڈی اے حکومت نے دستوری عہدوں جیسے گورنرس کے تقررات کے مسئلہ پر تصادم کا راستہ اختیار کرنے کے بعد اب عدلیہ کے اُمور میں مداخلت کرکے نیا تنازعہ پیدا کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے تقررات کے معاملہ میں بھی سیاسی تعصب پسندی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ یو پی اے حکومت میں سابق سالیسیٹر جنرل گوپال سبرامنیم کو سپریم کورٹ جج بنانے سے متعلق سرگرمیوں کو روک لگانے کے پیچھے سیاسی بالادستی کارفرما نظر آرہی ہے۔ ملک میں تمام اعلیٰ سرکاری اداروں کے اندر تقررات کے مسئلہ کا حل موجود ہے۔ ججس کے تقررات کا معاملہ بھی جوڈیشیل تقرراتی کمیشن کے اختیار میں ہوتا ہے۔ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس کے ججس کے تقررات بھی اس کے رہنمایانہ خطوط پر وسیع تر بنیادوں پر انجام دیئے جاتے ہیں، لیکن کمیشن کا بھی بعض موقعوں پر جانبدارانہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا کے تقرر کے مسئلہ سے متعلق تنازعہ شدت اختیار کرنے سے قبل ہی گوپال سبرامنیم نے اپنی امیدواری سے دستبرداری اختیار کرلی تھی، کیونکہ ان کا احساس تھا کہ اگر وہ چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدہ کی دوڑ میں خود کو شامل رکھتے ہوئے مرکزی اختیارات کی حامل سوپر پاور شخصیت کو ناراض کریں تو ان کی کردارکشی کا سلسلہ زور پکڑے گا۔ انھیں بدنام کرنے کی ناپاک کوششیں تیز ہوجائیں گی۔ چیف جسٹس آف انڈیا کو روانہ کردہ مکتوب میں انھوں نے واضح کردیا تھا کہ بحیثیت ایک قانون داں اور وکیل کے میری آزادی اور خود اختیاری نے ہی یہ اندیشے پیدا کردیئے ہیں کہ میں سرکاری طرف داری یا حکومت کی وفاداری کی صف میں شامل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے تقرر کے معاملہ کو روک دیا جارہا ہے۔

عدلیہ کو سیاستدانوں کی مرضی کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑیں تو مسئلہ نازک رُخ اختیار کرتا جائے گا۔ نریندر مودی حکومت نے عدلیہ اور اس کے اُمور میں بھی مداخلت کو اپنا اختیار تصور کیا ہے تو آگے چل کر اس کے دیگر کئی قانونی، اخلاقی، اُصولی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ سپریم کورٹ جج کی جانب سے کسی بھی قانون داں کے تقرر کو تنازعہ کا شکار بناکر سیاسی مطلب براری کا مظاہرہ ہوتا ہے تو اس کا نوٹ لیا جانا چاہئے۔ عدلیہ سے سمجھوتہ کرلینا افسوسناک واقعہ قرار پائے گا۔ سبرامنیم کے خلاف انٹلیجنس بیورو کو سرگرم کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ سابق حکومت سے وفاداری کرنے والوں کا تعاقب برخاست نہیں کیا جائے گا۔ گوپال سبرامنیم کے خلاف جس طریقہ سے مہم چلائی جارہی ہے اور انٹلیجنس بیورو کو ان کے پیچھے لگایا گیا ہے، اس سے عدلیہ، قانون اور سیاسی حلقوں میں سرگرم بحث چھڑ گئی ہے۔ کسی کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کرکے اس کو بدنام کرنا یا سیاسی غصہ نکالنے کے لئے سرکاری مشنری و طاقت کا استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جو کام یو پی اے حکومت میں ہوتا رہا تھا، اس کام کو این ڈی اے حکومت نے بھی جاری رکھا ہے تو یہ جیسے کو تیسا کی حرکت متصور ہوگی۔ اسی انٹلیجنس بیورو نے قبل ازیں سبرامنیم کے خلاف کوئی کیس نہ ہونے کا ادعا کیا تھا، اب ان پر نئی رپورٹ تیار کی گئی ہے جس سے بی جے پی حکومت کو مزید موقع مل گیا ہے کہ وہ سبرامنیم کے تقرر کی شدید مخالفت کرے۔ سبرامنیم کی مخالفت کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ 2011ء کے پارلیمنٹ حملہ کیس میں سید گیلانی کی سزا سے متعلق انھوں نے بعض تحفظات ذہنی کا اظہار کیا تھا جس سے بی جے پی حکومت کو اپنی چراغ پائی کا موقع مل گیا۔

پارلیمنٹ کیس کے دوران سبرامنیم اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر تھے اور حال ہی میں سری پدمنابھا سوامی مندر کیس میں وہ عدالت کے دوست گواہ بن گئے تھے۔ انھوں نے تھروندرام میں 35 دن گزارکر مندر کامپلکس میں ہونے والی دھاندلیوں کو آشکار کیا تھا۔ مندر کے خزانے سے بڑے پیمانے پر سونے کی غیر قانونی منتقلی یا چوری کا بھی انھوں نے پتہ چلایا تھا۔ اس پر ان کی 575 صفحات کی رپورٹ پیش کی گئی، جس میں کئی خرابیوں اور دھاندلیوں کا ذکر ہے اور کئی سیاسی پارٹیوں اور قائدین کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔ گوپال سبرامنیم کی صاف گوئی ہی انھیں اعلیٰ عہدہ کے استحقاق سے محروم کررہی ہے۔ سرگردہ سیاسی وابستگی میں خود کو نیچا دکھاتے تو شاید آج کا منظر مختلف ہوتا۔ سی بی آئی نے قبل ازیں یہ اعتراض کیا تھا کہ انھوں نے سابق وزیر ٹیلی کام اور 2G کیس کے ملزم اے راجہ کے وکیل سے ملاقات کی ہے۔ انھیں کارپوریٹس گھرانوں سے بعض مراعات اور سرپرستی ملی ہے۔ ان تمام الزامات اور خیالات کو سبرامنیم نے مسترد کردیا ہے، تاہم نریندر مودی حکومت کے انٹلیجنس بیورو کی رپورٹ کو بہانہ بناکر عدلیہ کے معاملہ کو سیاسی فیصلہ سازی کی نذر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے بھی حکومت کی بے جا مداخلت پر تنقید کی ہے۔ جب قانون موجود ہو تو دیگر طاقتوں کو مداخلت کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ گوپال سبرامنیم کے معاملہ میں قانون کو اپنا کام کرنے دینا ہوگا۔ عدلیہ کو اپنا فریضہ ادا کرنا ہے اور حکومت اپنے کام کاج غیر جانبدارانہ طور پر انجام دے تو ایک دوسرے کا احترام کرنے کا جذبہ فروغ پائے گا، ورنہ حکومت کی بالادستی کا شوق کئی مسائل پیدا کرسکتی ہے۔