این ڈی اے ارکان پارلیمنٹ

اُمید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے
یہ خاکباز ہیں رکھتے ہیں خاک سے پیوند
این ڈی اے ارکان پارلیمنٹ
مرکز میں عام طور پر وزراء اور سیاست دانوں کے بیانات پڑھ کر عوام بدمزہ ہوتے ہیں، لیکن جب سے نریندر مودی زیرقیادت حکومت آئی ہے، عوام کو بیانات میں ذہنی کوفت کی باتیں سماعت کرنی پڑرہی ہیں۔ خاص کر وزیراعظم نریندر مودی نے ابتدائی چند ماہ خاموشی کے بعد بولنا شروع کیا ہے۔ صحافیوں سے ملاقات کے بعد دیوالی ملن کے حصہ کے طور پر این ڈی اے کے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں انہوں نے تمام ارکان کو مشورہ دیا کہ وہ سیاست سے بالاتر ہوکر غوروفکر کی عادت ڈالیں۔ بلند خیالات اور نیک مقاصد کے ساتھ غریب عوام کی خدمت کے لئے وقف ہوجائیں۔ مودی کے یہ مشورے بلاشبہ سیاست دانوں کو کچھ کر دکھانے کی سمت حوصلہ افزاء رہنمائی ہے۔ مودی کی پالیسی کے بارے میں یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ وہ ہندوستان کے لئے ایک ایسی پالیسی رکھتے ہیں جس کی بنیادیں فرقہ پرست تنظیم آر ایس ایس کے اُصولوں پر رکھی گئی ہیں، مگر نریندر مودی کو یہ احساس بھی ہے کہ عوام نے انہیں بھاری ذمہ داری دی ہے۔ بھاری اکثریت سے منتخب کیا ہے تو ذمہ داریوں میں اضافہ بھی ہوگا۔ ہندوستانی رائے دہندہ کو اہمیت دی جاتی ہے تو وہ ان ذمہ داریوں کو بلاامتیاز پورا کریں گے۔ تاحال مودی حکومت کی کارکردگی صرف بیانات و اعلانات تک ہی محدود دکھائی دے رہی ہے۔ عوام کو نتائج کا انتظار ہے۔ کالے دھن کی واپسی کا انتظار ہے، اسکامس کے خاتمہ، اذیت ناک سلوک، لاک اَپ اموات، فسادات پر قابو پانے کے اقدامات کرنے کا انتظار ۔نریندر مودی کی سوچھ بھارت مہم کا بہترین ردعمل سامنے آرہا ہے۔ یہ صاف صفائی کی مہم ایک اچھی کوشش ہے لیکن اس سے اچھی کوشش پاکیزگی ہے۔ ایک ایسی پاکیزگی جس میں کوئی بغض ، کینہ اور بدنیتی نہ ہو۔ جب سرکاری سطح پر رشوت کا خاتمہ ہوجائے، سیاست دانوں کے ذہنوں سے فرقہ پرستی کی سوچ کا صفایا ہوجائے تو ہندوستانی سماج کا معیار اور مرتبہ بلند ہوگا۔ ’’اب کی بار مودی سرکار‘‘ کا نعرہ پورا ہوچکا ہے تو اب مودی کو وعدے کے مطابق 100 دن کے اندر کالے دھن کو واپس لانا چاہئے تھا۔ اس جانب کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دیتی۔ این ڈی اے کے ارکان پارلیمنٹ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ مثبت سیاسی سوچ کو فروغ دے کر عوام کی خدمت کریں اور ان کے پسندیدہ پروگراموں کو روبہ عمل لانے کو یقینی بنائیں۔ یہ ایک درست مشورہ ہے۔ اب ارکان پارلیمنٹ کو ایسے کام کرنے چاہئیں جس سے ان کی اپنی انفرادی شناخت پیدا ہو اور عوام کی نگاہوں میں ان کی عزت بڑھ جائے۔ ماضی کی حکومت میں ارکان پارلیمنٹ نے جو غلطیاں کی تھیں، ان کا اعادہ نہ ہو تو وزیراعظم مودی کی پالیسیوں کو غریب عوام تک پہونچانے میں کامیابی ملے گی۔ حکومت کی اچھی پالیسیوں کے مثبت نتائج برآمد کرنے کے لئے چاہئے کہ تمام وزراء و ارکان پارلیمنٹ ہر ہفتہ مل بیٹھ کر اپنے کاموں اور کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیں۔ ایک دوسرے کو مثالی کام انجام دینے کی ترغیب دیں۔ ان ارکان پارلیمنٹ کو ایسے کام کرنے چاہئیں جس سے عوام کی نظروں میں سیاست دانوں کی امیج بہتر ہوجائے۔ عوام سے ووٹ مانگنے کا حق اپنے کاموں کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ سیاسی ایجنڈہ اور اسکیمات کو دیانت داری سے روبہ عمل لایا جائے تو سیاست دانوں میں بڑی تبدیلی نوٹ کی جائے گی۔ وزیراعظم نے میڈیا کی بھی ستائش کی ہے۔ صحافیوں کے ایک بڑے گروپ سے ملاقات کرکے انہوں نے اپنی نیک نامی کے کھاتے کو قوی بنانے کی کوشش کی ہے۔ حکومت اور اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہ لگے، اس لئے وہ میڈیا کو قریب کررہے ہیں۔ ان کے کام کاج سے اختلاف رکھنے والے پوچھتے ہیں کہ ہندوستان کی معیشت و حالات ٹھیک کرنے کے بارے میں ان کی پالیسی جذباتی مشوروں اور بیانات کے علاوہ کیا منصوبہ بندی ہے۔ وہ یہ بتائیں کہ برسراقتدار آنے کے بعد انہوں نے عوام کے مسائل کس حد تک حل کئے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد پڑوسی ملکوں سے ہندوستان کے تعلقات کس حد تک درست کرائے ہیں۔ سرحدی تنازعات اور کشیدگی کے حوالے سے پاکستان اور چین کو للکارا جارہا ہے، کیا ایک جمہوری اور سیکولر ملک کے سربراہ اور ان کی حکومت کا پڑوسی ملکوں کے ساتھ تلخ رویہ رکھنا درست ہے۔ یہ بھی بتائیں کہ ان کی حکومت نے غریب عوام کے آنسو پونچھنے کے لئے کیا کیا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ این ڈی اے حکومت اس وقت ان کے دباؤ میں ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد بھی ان سے بے حد مرعوب ہے۔ وہ اس سے فائدہ اٹھاکر غریب عوام کے لئے اچھے کام کرواسکتے ہیں۔ ان کے اچھے کاموں کی تشہیر کرنے کے لئے میڈیا بھی ان کے ساتھ ہے۔ جو لوگ وزیراعظم مودی کے اعلانات و بیانات کے بعد بہت خوش ہوئے ہیں، انہیں یہ بات مدنظر ضرور رکھنی چاہئے کہ ابھی عوام کا شعور زندہ ہے۔