این آر سی ہندو مسلم معاملہ نہیں ایک سیاسی کھیل ہے : ۔ گارگا چٹر جی 

آسام میں نیشنل رجسٹر فار سٹیزن کا فائنل ڈرا فٹ جاری ہونے پر بی جے پی میں خوشی کی لہر دوڑگئی او راروند راج کھووا کی قیادت والی انتہاپسند تنظیم یونائیٹڈ لبریش فرنٹ آف آسام میں بھی خوشی ہے ۔موجودہ وزیر اعلی سرو آنند سونیوال بھی آسو کے سابق صدر ہیں ۔سونیوال اس وقت آسو کے صدرتھے تب یہ تنظیم بے حد سرگرم تھی ۔ وہیں الفا بہت سارے غیر آسا میوں کے قتل کی ذمہ دار ہے ۔ان کرداروں او رتنظیموں کے ذریعہ ہمیں یہ سمجھنے میں آسامی ہوگی کہ این آر سی کو آخر کس مقصد کیلئے تیار کیا گیا ہے ۔دہلی دراصل آسام او ربنگال سے بہت دور ہے ۔

اس لئے دہلی میڈیا نے این آر سی کی مخالفت کو ہندو مسلم معاملہ بنادیا ہے ۔ایسا خاص طو رپر بنگالی مترجموں کی وجہ سے ہوا ہے جنہیں زمینی حقائق کا علم نہیں ہے ۔نتیجۃً آج این آر سی کی مخالفت نے ہندو مسلم رنگ اختیار کرلیا ہے جو کہ بی جے پی کو فائدہ پہنچارہا ہے ۔وہ بڑی آسانی کے ساتھ کہہ سکتی ہے کہ دیکھو ٹی ایم سی او رمسلمان ایک ساتھ کھڑے ہیں ۔ اس کہا نی کادوسرا پہلو یہ ہے کہ اس معاملہ کی معلومات او راس کی سمجھ نیز تحقیق خود مظلوم کا تمغہ لگا کر دوم درجہ کا شہری بننے کی عادی چکا ہے ۔

جب ہندو مسلم جھگڑے کی عادت بن گئی تو اصل معلومات تلاش کرنے کی زحمت کون کرے گا ؟لیکن اب حقیقت سامنے آنے لگی ہے ۔یہ بات جھوٹ ہے کہ این آر سی مسلم مخالف ہے ۔بنیادی طورپر این آر سی بنگالی مخالف ہے پھر چاہے وہ ہندو بنگالی ہو یا مسلم بنگالی ۔یہ مسئلہ اتنا طویل او راتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ بنگالی مخالف اس مہم کی لپیٹ میں گورکھا جیسے چھوٹے موٹے گروہ بھی آگئے ۔بنگال میں گزشتہ کئی دہائیو ں میں پہلی بار برسراقتدار ٹی ایم سی او راپوزیشن پارٹی کی سی پی ایم کسی موضوع پر متحد ہوئے ہیں ۔ترنمول کانگریس نے اپنے اراکین کی ایک ٹیم آسام بھیجی تھی جو وہاں کے شہریو ں کی ایک میٹنگ میں شامل ہونے گئی تھی ۔لیکن آسام پولیس نے اس ٹیم کوطاقت کے دم پر ہوائی اڈہ پر ہی روک لیا ۔