این آئی اے، دہشت گرد نوجوان اور سیاسی و مالی فائدہ

اُتر پردیش پر نظر، قانونی امداد کرنے کا اعلان چال بازی کا حصہ
حیدرآباد۔/5جولائی ( سیاست نیوز) آئی ایس آئی سے تعلق اور شہر میں دہشت گردانہ حملوں کا مبینہ منصوبہ بنانے کے الزامات عائد کرتے ہوئے جن مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ انہیں ایک منصوبہ بند سازش کے تحت پھانسا گیا ہے۔ دراصل یہ سب کچھ ایک سیاسی میچ فکسنگ کا نتیجہ ہے جس سے مسلمانوں کے دشمنوں اور خود مسلمانوں کی صفوں میں رہبروں کی شکل میں موجود رہزنوں کو ناقابلِ تصور مالی و سیاسی فوائد حاصل ہوں گے ، تاہم یہ سیاسی فائدے کسے حاصل ہوں گے اور کون مالی فائدہ حاصل کرے گا اس بارے میں مسلم دشمن فرقہ پرست اور مسلمانوں کے ہمدردوں کے بھیس میں چھپے قائدین ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ اب عوام بالخصوص حیدرآبادیوں میں ایک تعلیمی انقلاب برپا ہوا ہے لوگ اچھی طرح جاننے لگے ہیں کہ انھیں کون بے وقوف بنانے اور ان کا استحصال کرنے کی کوشش کررہا ہے؟ کون ہے جو مسلمانوں کے نام پر سیاسی سودے بازی میں ملوث ہے؟ کون ہے جو بی جے پی حکومت اور سنگھ پریوار کے ناپاک عزائم کی تکمیل میں ان کے ساتھ بڑی مہارت کے ساتھ تعاون و اشتراک کررہا ہے؟ شہریان حیدرآباد کے ذہنوں میں یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ آخر یہ سب کچھ کیوں کیا جارہا ہے ؟۔ آیا یہ سیاسی مجبوری ہے یا پھر ملت کی قیمت پر سیاسی سودے بازی ؟ یہ تمام ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات وہی اچھی طرح جانتے ہیں جو فرقہ پرستوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں، ان ہی کے اشاروں پر مہاراشٹرا اور بہار کے بعد اب اُترپردیش کا رُخ کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں تاکہ سیکولر طاقتوں کا نقصان اور فرقہ پرستوں کا فائدہ ہی فائدہ ہو۔ بہرحال اب چلتے ہیں این آئی اے ( قومی تحقیقاتی ایجنسی ) 5 نوجوانوں کی گرفتاری کے معاملہ کی طرف صرف اور صرف پرانا شہر کے مختلف مقامات سے این آئی اے نے الصبح دھاوے کرتے ہوئے 11مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر ان کی تفتیش کرتی ہے پھر ان میں سے 6 کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور 5کو دہشت گردی کے مقدمات میں پھانس لیا جاتا ہے۔ یہ گرفتاریاں ایک ایسے تاریخی شہر میں ہورہی ہیں پارلیمنٹ میں جس کی نمائندگی اسد اویسی کرتے ہیں، ان گرفتاریوں کے ساتھ جہاں ان نوجوانوں کے والدین، دوست احباب، رشتہ دار ان کے بے قصور ہونے اور این آئی اے و پولیس پر جان بوجھ کر ان کے لاڈلوں کی زندگیاں تباہ کرنے کے الزامات عائد کرنے شروع کئے وہیں ہمارے شہر کے رکن پارلیمنٹ اور بی جے پی قائدین کے درمیان بحث شروع ہوگئی۔ نوجوانوں کی گرفتاری پر شہر کے مسلمان کافی برہم ہوگئے تھے ایسے میں سیاسی قائدین کیلئے کم از کم ان نوجوانوں کی تائید میں بیانات جاری کرنا اور ٹی وی چیانلوں پر اس انداز میں اظہارِ خیال کرنا بہت ضروری تھا جس سے بھولے بھالے مسلمانوں میں یہ تاثر جائے کہ ہمارے قائد مسلمانوں کی ہر تڑپ پر تڑپ اُٹھتے ہیں۔ اوقافی جائیدادوں کی تباہی و بربادی پر شدت غم سے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ریلا بہنے لگتا ہے، اللہ کی امانت ان جائیدادوں پر شادی خانوں اور بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر پر غصے کے مارے ان کا وجود لرزنے لگتا ہے۔ بہر حال صدر صاحب نے خود کو حقیقت میں نوجوانوں کا ہمدرد ظاہر کرنے اعلان کردیا کہ جماعت ان نوجوانوں کو قانونی امداد فراہم کرے گی، ان کے اس بیان سے یا پھر ایک منصوبہ بند طریقہ سے مقامی، ریاستی و قومی سطح پر بی جے پی قائدین اور ان میں بحث و مباحث کا بظاہر ایک مقابلہ شروع ہوگیا جس کے مقاصد کے بارے میں سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ کسی کو ملت سے کوئی ہمدردی نہیں، بے قصور نوجوانوں کی گرفتاریوں کا کوئی غم نہیں یہ بیان بازی اور ٹی وی چینلوں پر مباحثے ایک سیاسی کھیل بلکہ سودے بازی کا ایک حصہ ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس پر دکنی محاروہ ’’ میں مارے ویسا کرتوں تو روئے ویسا کر ‘‘ پوری طرح فٹ ہوتا ہے۔ جماعت کے صدر نے بے قصور مسلم نوجوانوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن جماعت کے قریبی اور باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اعلان صدر صاحب کیلئے گلے کی ہڈی بن گئی ہے جو اندر جارہی ہے نہ ہی باہر نکل رہی ہے۔ اسی ذرائع کے مطابق اوپر سے’’ کھوٹا ‘‘پڑ رہا ہے کہ ان مسلم نوجوانوں کو قانونی امداد فراہم نہ کی جائے، جس کے بعد مسلم کاز کے چمپین بننے کی کوششوں میں مصروف قائد عجیب کشمکش کا شکار ہیں، انھیں یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کریں تو آخر کیا کریں۔ قانونی امداد فراہم کرتے ہیں تو اوپر سے کھوٹا پڑے گا اور اپنے قدم ہٹاتے ہیں تو مسلمانوں میں ان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے کیونکہ بہار الیکشن کے بعد سے ہی ان پر مودی حکومت کے مفاد میں کام کرنے کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عیدالفطر کے دو چار دن بعد ان کے فیصلہ میں تبدیلی آجائے گی۔ ایم پی صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہندوستان بھر بالخصوص تلنگانہ اور حیدرآباد میں ان کے تعلق سے کیا رائے پائی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق آئندہ سال اُتر پردیش اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں بی جے پی ہر حال میں ہندو ووٹ متحد اور مسلم ووٹ منقسم کرنا چاہتی ہے۔ مودی اور امیت شاہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے ملائم سنگھ یادو کی سماجوادی پارٹی اور مایاوتی کی بی ایس پی کے مسلم ووٹ تقسیم ہوجائیں اور اس کیلئے ’’ ووٹ کٹوا ‘‘ ہی یہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ ذرائع کے بموجب مقامی جماعت یو پی الیکشن میں حصہ لینے کا منصوبہ بنارہی ہے جب وہ وہاں کے انتخابی میدان میں داخل ہوگی تو بی جے پی طئے شدہ منصوبہ کے مطابق یہ ہندوؤں کو یہ بتائے گی کہ یہی وہ جماعت ہے جس نے دہشت گردوں کی مدد کی دوسری طرف ایس پی اور بی ایس پی کے مسلم ووٹ جماعت کے حق میں استعمال ہوں گے ایسے میں مسلم ووٹوں کی تقسیم سے یو پی میں بھی وہی ہوگا جو آسام میں ہوا یعنی وہاں ایسی صورتحال پیدا ہوگی جس سے کسی کو مالی اور کسی کو سیاسی فائدہ حاصل ہوگا۔ جہاں تک شہر کے 5 مسلم نوجوانوں کی این آئی اے کی جانب سے گرفتاری کا معاملہ ہے یہ اسی طرح جھوٹ ہے جس طرح مکہ مسجد بم دھماکوں میں مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کیاگیا تھا۔ 18مئی 2007 کو مکہ مسجد میں دھماکے ہوئے تھے جس کے چند گھنٹوں بعد ہماری بہادر اور قابل پولیس، میڈیا نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ یہ چند مسلم نوجوانوں کی کارستانی ہے۔ لیکن تین سال بعد گجرات اے ٹی ایس، سی بی آئی اور این آئی اے نے خود اعلان کیا کہ مکہ مسجد دھماکے مسلم نوجوانوں کی نہیں بلکہ ہندو دہشت گردوں بشمول سوامی اسیمانند کی کارستانی ہے اور اسیمانند نے خود اس بارے میں اقبال جرم بھی کیا لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ دھماکوں کے بعد ہمارے صدرصاحب نے بھی پولیس کے متعصب عہدیداروں فرقہ پرستوں اور مسلم دشمن میڈیا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ان دھماکوں کو شاہد بلال کی کارستانی قرار دیا تھا۔