فارمولہ ون کار ، زلزلہ کے اثرات سے مدافعت کرنے والے مکانات کے ماڈل کی پیشکش ، انجینئرنگ طلباء کا مظاہرہ
حیدرآباد۔ 3 مئی (پریس نوٹ) نظام انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی کے احاطہ میں "Project Expo 2015” نمائش کا انعقاد عمل میں آیا جس میں کالج کے انجینئرنگ طلباء نے اپنی تکنیکی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ یہ نمائش چند اخترائی سوالات کو ذہن میں رکھ کر کی گئی تھی جن میں آفات سماوی سے متاثرہ علاقوں میں ہزاروں بے گھر افراد کو کس طرح چھت فراہم کی جاسکتی ہے؟ دھان کی کاشت میں مزدوری کے خرچ کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ آفات سماوی جیسے زلزلوں سے متاثرہ علاقوں میں مختلف ترقیاتی پراجیکٹس بشمول کم قیمتیں Pre Fad Housing کو موثر طریقہ سے کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔ ہر عارضی مکان 10 ہزار روپئے مالیتی ہوگا جس میں کم از کم 4 افراد رہ سکیں گے اور جہاں 2 بستروں کی جگہ بھی ہوگی۔ ایسے میں بارش، تیز ہواؤں اور انتہائی ناسازگار موسمی حالات میں متاثرہ عوام کو سائبان اور چھت فراہم کی جاسکتی ہے۔ کالج کے طلباء نے دھان کی فصل کو دوسرے مقام پر منتقل کرنے والی ایک مشین بھی ایجاد کی ہے جس کا مقصد دھان کی کاشت کاری میں مزدوروں اور مزدوری کے اصراف کو ختم کیا جاسکے۔ میکانیکی طریقہ سے تیار کی گئی اس مشین کو جب ٹریکٹر سے جوڑ دیا جائے، یہ دھان کے پودوں کو دوسری طرف بڑی آسانی سے منتقل کردے گی۔ یہ طریقہ کار ہندوستان میں بالکل نیا ہے۔ نظام انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی کا مقصد اس تکنیک کو ماس مارکیٹنگ کی دنیا میں عملی طور پر متعارف کرنا ہے۔ طلباء نے ایک برقی کے دوسرے استعمال والے واٹر پمپ بھی ایجاد کیا ہے جسے آفات سماوی سے متاثرہ علاقوں میں برقی گرڈ کے ناکارہ ہوجانے کے نتیجہ میں برقی مسدودی، برقی کٹوتی یا برقی سربراہی میں بار بار خلل کو دور کرنے کے لئے متبادل توانائی کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس نمائش میں طلباء کی جانب سے تیار کردہ جامع اسمارٹ کارڈ بھی پیش کیا گیا جو آر ٹی سی اور ایم ایم ٹی ایس خدمات میں ایک ’’مشترکہ کارڈ‘‘ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ادارہ نظام نے اس کارڈ کو حکومت کے علم میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر اسے منظوری مل جاتی ہے تو اس مشترکہ کارڈ کو عوام کے استعمال کے لئے متعارف کیا جاسکتا ہے۔ اس نمائش کی نگرانی صدرنشین امتہ القراء ایجوکیشنل سوسائٹی جناب محمد جعفر نے کی جبکہ شریک معتمد فتح عظمت اور پرنسپل نظام انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی ڈاکٹر محمد قاسم کے علاوہ طلباء اور اساتذہ بھی موجود تھے۔