سڑکیں ابتر ، کھلے ڈرینج اور بلدی مسائل کا انبار ، مسلم محلوں کا پسماندہ علاقوں میں شمار
حیدرآباد۔ 6 جولائی (سیاست نیوز) پرانے شہر کی پسماندگی سے کون انکار کرسکتا ہے؟ لیکن وقفہ وقفہ سے کروڑہا روپئے کے ترقیاتی کاموں کا خواب دکھاکر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش عوام کے لیے باعث حیرت ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو نے پرانے شہر کے لیے 1200 کروڑ روپئے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ وہ رمضان المبارک سے قبل پرانے شہر کا دورہ کرتے ہوئے مختلف پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھنے والے تھے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر چیف منسٹر کا دورہ آج تک حقیقت میں تبدیل نہیں ہوا۔ کیا چیف منسٹر کے پاس پرانے شہر کے عوام اور ان کی ترقی کے لیے کوئی وقت نہیں ہے؟ یا پھر حکومت کے پاس پرانے شہر کے لیے کوئی ترقیاتی منصوبہ تیار نہیں ہے۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن میں 99 نشستوں پر کامیابی کے بعد چیف منسٹر نے اعلان کیا تھا کہ وہ شہر کی پسماندگی کا خاتمہ کردیں گے۔ شہر کو سنگاپور اور استنبول کی طرز پر ترقی دی جائے گی۔ اور کبھی نیویارک سٹی کے خواب دکھائے گئے۔ چیف منسٹر نے پرانے شہر میں پارٹی کو مستحکم کرنے کے لیے منصوبہ تیار کیا لیکن پارٹی کیڈر نے ترقیاتی کاموں کی سفارش کی۔ نئے شہر میں اگرچہ کئی ترقیاتی پراجیکٹس کا آغاز کیا گیا لیکن پرانا شہر ابھی تک صرف وعدوں تک محدود ہوچکا ہے۔ وزیر بلدی نظم ونسق کے ٹی راما رائو نے حالیہ دنوں پرانے شہر کے بعض علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کے علاوہ وقفہ وقفہ سے مختلف اسمبلی حلقوں میں کروڑہا روپئے کے ترقیاتی کاموں کے سنگ بنیاد یا افتتاح سے متعلق خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہے۔ لیکن زمینی حقیقت مختلف ہے۔ کروڑہا روپئے کے ترقیاتی کاموں کے باوجود پرانے شہر کی پسماندگی کیوں برقرار ہے۔ عوام آج تک بھی بنیادی شہری سہولتوں سے محروم ہے۔ صحت و صفائی کے ناقص انتظامات کے علاوہ غیر کشادہ اور ناقص سڑکیں پرانے شہر کی پسماندگی پر ماتم کناں ہیں۔ ایسے میں کروڑہا روپئے کے ترقیاتی کام آخر کہاں انجام دیئے جارہے ہیں۔ کیا یہ رقم حقیقت میں خرچ کی جاتی ہے یا پھر کنٹراکٹرس اور سیاسی قائدین اس رقم میں اپنی حصہ داری تلاش کرتے ہوئے کاموں کو کاغذی طور پر تکمیل کا دکھاوا کررہے ہیں۔ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی ترقیاتی کام کے سلسلہ میں فنڈس کی اجرائی سے قبل ہی سیاسی قائدین اور کنٹراکٹر اپنا حصہ نکال لیتے ہیں۔ جس علاقے میں ترقیاتی کام انجام دیئے جاتے ہیں ان کے آغاز سے قبل کنٹراکٹر کو مقامی قائدین کو ان کا حصہ دینا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکوں کی تعمیر یا دیگر جو بھی کام انجام دیئے جاتے ہیں وہ غیر معیاری اور ناقص ہوتے ہیں۔ نئی تعمیر کردہ سڑک صرف چند ماہ میں دوبارہ خستہ حالی کا شکار ہوجاتی ہے۔ کروڑہا روپئے کے ترقیاتی کاموں کے دعوئوں پر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ حکومت کے خزانے سے جاری ہونے والی رقم آخر کہاں جارہی ہے؟ کروڑہا روپئے کے ترقیاتی کاموں کے سنگ بنیاد کے پتھر کئی علاقوں میں برسوں سے صرف پتھر تک محدود ہیں اور کوئی کام شروع نہیں ہوا ہے۔ مقامی عوام کا کہنا ہے کہ اگر عوامی نمائندوں اور حکومت کو پرانے شہر کی ترقی سے حقیقی معنوں میں دلچسپی ہے تو انہیں ترقیاتی کاموں سے متعلق ہر اسمبلی حلقے کا چار سال کا ریکارڈ عوام کے روبرو پیش کرنا ہوگا۔ حکومت کو پرانے شہر کے تمام اسمبلی حلقوں میں ترقیاتی کاموں کی تفصیلات پر مشتمل وائٹ پیپر جاری کرنا چاہئے۔ ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے سلسلہ میں کروڑہا روپئے خرچ کرنے کا دعوی اپنی جگہ لیکن حال ہی میں حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق شہر کے ارکان اسمبلی نے اپنے حلقے کے ترقیاتی فنڈس کا صحیح استعمال نہیں کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے شہر میں اب تک ارکان اسمبلی کے لیے ترقیاتی فنڈ کے طور پر 36 کروڑ روپئے جاری کیے ہیں جن میں سے صرف 9 کروڑ 21 لاکھ روپئے خرچ کیے گئے۔ بعض ارکان اسمبلی نے ترقیاتی فنڈ کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا جبکہ زیادہ تر ارکان اسمبلی نے صرف لاکھوں میں رقم خرچ کی ہے۔ جبکہ ہر اسمبلی حلقے کو حکومت نے 2.25 کروڑ جاری کیے ہیں۔ فورم فار گوڈ گورننس کی جانب سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق گریٹر حیدرآباد کے حدود میں 20 ارکان اسمبلی، 10 ارکان کونسل اور 5 ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ لیکن پسماندہ علاقے آج بھی ترقی سے محروم ہیں۔ پرانے شہر کے عوام آخر کب تک کروڑہا روپئے کے ترقیاتی کاموں کے اعلانات سے بہلتے رہیں گے۔