حج کا سفر عشق و محبت، شیفتگی و وارفتگی، دیوانگی و فدائیت کے جذبات سے پُر ہوتا ہے۔ ایک طرف کعبہ کی کشش بندۂ مؤمن کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور وہ دیوانہ وار اس کے اطراف منڈلانے لگتا ہے اور اس کے درودیوار سے چمٹ جاتا ہے، دوسری طرف مدینہ منورہ کی مقدس سرزمین عاشق زار کے شوق و اضطراب میں مزید طوفان بپا کردیتی ہے۔ پس وہ کشاں کشاں مدینہ منورہ پہنچتا ہے اور نہایت ادب و احترام کے ساتھ اس مقدس ہستی کی بارگاہِ عالی مرتبت میں حاضری دیتا ہے، جو وجہہ تخلیقِ کائنات ہیں، خالق اور مخلوق کے درمیان برزخِ کبریٰ ہیں، جنھوں نے کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں توحید کی شمع کو روشن کیا، انسانیت کو ہدایت کا راستہ بتایا، معبودانِ باطل کی مزعومہ بیڑیوں سے آزاد کرکے معبودِ برحق کی عبادت کا سلیقہ بتایا، ساری انسانیت کے لئے عدل و انصاف، پیار و محبت اور امن و سلامتی پر مبنی دستورِ حیات اور ضابطۂ زندگی کو مدون فرمایا۔ ایمان کی دولت سے سرفراز فرماکر آخرت کے دائمی عذاب سے محفوظ و مامون فرمایا۔ اگر وہ مبعوث نہ ہوتے تو کعبہ صنم کدہ ہی رہتا۔ اگر وہ نہ ہوتے تو کون دنیا کو مکارمِ اخلاق کی تعلیم دیتا۔ وہی ہیں جنھوں نے دنیا کو خدا کے غیر محسوس وجود کا پتہ بتایا اور ساری انسانیت کو رازِ زندگی سمجھایا۔ وہی اہل اسلام کی دل کی دھڑکن اور آنکھوں کا سُرمہ ہیں، جن پر فدا ہونے کے لئے اہلِ اسلام ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
عشق و محبت میں ڈوبے لاکھوں حجاج کرام مدینہ منورہ پہنچتے ہیں، بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر اپنی غلامی اور شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ قبر شریف کی زیارت کے لئے حاضری اور اس کی مشروعیت کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں، اس کے استحباب و استحسان میں کوئی کلام نہیں۔ وہ نہ صرف افضل ترین تقرب کے اعمال میں سے ہے، بلکہ احناف کے نزدیک واجب کے قریب کا درجہ رکھتی ہے۔ شہنشاہِ رباعیات امجدؔ حیدرآبادی نے کیا خوب کہا ہے:
ایمان کی تکمیل اے امجدؔ ہوتی ہے نبی کی زیارت سے
تم کعبہ جس کو کہتے ہو وہ نصف مکان مدینہ ہے
اس سمت کو سیدھے چلے جاؤ ، محبوب خدا سے مل آؤ
کعبہ میں میزابِ رحمت سنگِ نشانِ مدینہ ہے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی‘‘ ۔
(دار قطنی، السنن۲۔۸۷۲)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے میری وفات کے بعد حج کیا اور میری قبر کی زیارت کی، گویا اس نے مجھ سے میری حیات میں ملاقات کی‘‘۔ (نفس حوالہ)
اسی طرح دیگر احادیث میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد وصال زیارت کی تلقین کی اور اس پر اپنی رضا و خوشنودی اور قیامت میں اس کے ایمان کی گواہی اور اس کے لئے شفاعت کا وعدہ فرمایا اور جس نے وسعت و گنجائش کے باوجود زیارت نہ کی، اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ ارشاد فرمایا کہ ’’جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری زیارت نہ کی، پس اس نے میرے ساتھ جفا کیا‘‘۔
(شفاء السقام فی زیارۃ خیرالانام)
اس ضمن میں مختلف روایتیں وارد ہوئی ہیں، جن میں سے بعض احادیث کی سند معتبر ہے اور بعض کی اسناد میں کلام کیا گیا ہے، لیکن اس باب میں اس کثرت سے احادیث وارد ہوئی ہیں کہ بعض روایتیں دیگر روایتوں کی تائید کرتی ہیں، ان میں باہم کسی قسم کا تعارض یا تناقص نہیں اور خاص بات یہ ہے کہ زیارت قبر شریف پر اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا عمل رہا ہے۔ کسی ایک سے بھی اختلاف منقول نہیں ہے، بلکہ صرف زیارت کی غرض سے سفر کرنا صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عمل سے ثابت ہے۔ چنانچہ یہود کے بڑے عالم حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو زیارتِ قبر شریف کے لئے مدینہ منورہ سفر کرنے کی ترغیب دی تو حضرت کعب احبار نے بسر و چشم قبول کیا اور وہ بیت المقدس سے مدینہ منورہ صرف قبر شریف کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے۔ (واقدی،
فتوح الشام۱۔۸۱۳)
بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کجاوے نہ کسے جائیں (سفر نہ کیا جائے) سوائے تین مساجد کے (۱) مسجد حرام (۲) مسجد نبوی (۳) مسجد اقصیٰ‘‘ (بخاری باب فضل الصلوۃ، فی مسجد مکۃ والمدینۃ) بعض حضرات نے اس حدیث شریف سے استدلال کیا ہے کہ مدینہ منورہ کو قبر شریف کی زیارت کی نیت سے جانا درست نہیں ہے، بلکہ مسجد نبوی کی نیت سے جانا چاہئے، جب کہ مذکورہ حدیث شریف میں زیارت قبر شریف سے متعلق نہ صراحتاً کوئی ممانعت ہے اور نہ اشارۃً کوئی حکم ہے اور اگر تین مساجد کے سواء کوئی سفر درست ہی نہیں تو طلبِ علم کے لئے سفر کرنا، کسب معاش کے لئے اور سیر و تفریح کے لئے سفر کرنا سب اس کے حکم میں داخل ہوں گے، جو کہ نہ عقلاً قبول ہے اور نہ ہی شرعاً۔
حدیث شریف کو سمجھنے کے لئے شارحین حدیث کی تشریحات ضروری ہوتی ہیں اور بخاری شریف کے عظیم شارحین علامہ بدرالدین عینی نے عمدۃ القاری میں، ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور قسطلانی نے ارشاد الساری میں اس حدیث شریف پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ازدیادِ ثواب کی خاطر سفر کیا جائے تو ان ہی تین مساجد کا سفر کیا جائے۔ اس میں نفس سفر یا زیارتِ قبر شریف کے ارادہ سے کئے جانے والے سفر کی ممانعت نہیں ہے‘‘۔
میرے مربی خاص استاذ الاساتذہ حضرت مفتی محمد ولی اللہ قادری رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی عازمِ حج یا عازمِ عمرہ دعاء کے لئے حاضر خدمت ہوتا تو آپ فرماتے کہ بارگاہ رسالت میں میرا سلام عرض کرنا اور میری طرف سے یہ شعر پڑھنا:
یارسول اللّٰہ خذ بیدی
مالی سواک فی الدارین معتمدی
یعنی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری دستگیری فرمائیے دین و دنیا میں، آپ کے سوا میرا کوئی سہارا نہیں۔
روئے زمین پر رہائش و سکونت کے لئے سب سے بہترین کوئی جگہ ہے تو وہ مدینہ منورہ ہے۔ سرکار دوعالم ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’مدینہ ہی ان کے لئے بہتر ہے اگر وہ حقیقت سے واقف ہو جائیں‘‘۔ حضور نبی اکرم ﷺنے مدینہ منورہ میں وفات پانے والوں کے لئے شفاعت کی خوش خبری دی اور فرمایا: ’’تم میں سے جس کسی کے لئے مدینہ منورہ میں انتقال کرنا ممکن ہو، وہ وہیں انتقال کرے، کیونکہ میں مدینہ میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا‘‘۔ (ترمذی جامع صحیح، ابواب المناقب)
دیں اور کو حضور! یہ پیغامِ زندگی
میں موت ڈھونڈتا ہوں زمینِ حجاز