آفتاب ایک بہت ہی ایماندار لڑکا تھا ۔ روز کی طرح آج بھی وہ اسکول جارہا تھا کہ اسے راستے میں ایک خوبصورت لال رنگ کی تھیلی ملی ۔ اس نے پہلے سوچا کہ تھیلی اٹھاؤں پھر اس نے سوچا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو وہ مجھ پر چوری کا الزام لگادے گا پھر اسے خیال آیا کہ یہ تھیلی اٹھالوں ، جس کی ہوگی اسے ضرور واپس کردوں گا ۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا کوئی نہیں تھا ۔ اس نے تھیلی اٹھالی اور جب اسے کھول کر دیکھا تو اس میں دس روپئے تھے ۔ اس نے سوچا ابھی یہ اپنے پاس رکھ لیتا ہوں اسکول کیلئے دیر ہو رہی ہے ۔ جب چھٹی کے وقت آؤں گا تو جس کی ہوگی اسے دے دوں گا ۔ چنانچہ وہ اسکول چلایا گیا ۔ وہ اسکول میں سارا دن سوچتا رہا کہ آخر یہ تھیلی کس کی ہوگی۔ چنانچہ کچھ ہی دیر میں اسکول کی گھنٹی بج گئی ۔ وہ فوراً اسکول کے گیٹ سے باہر نکلا اور تھیلی کے اصلی مالک کو ڈھونڈنے لگا ۔ وہ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گیا تو ایک دخت کے نیچے بیٹھ گیا ۔ اسی درخت کے نیچے ایک بچہ رو رہا تھا ۔ آفتاب نے اس بچے سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس بچے نے کہا کہ میری امی نے صبح مجھے دس روپئے ایک تھیلی میں دئے اور کہا کہ دودھ لے آؤ ، میں جب دودھ لینے گیا تو وہ مجھ سے کھو گئے ۔ میں صبح سے وہ پیسے دھونڈ رہا ہوں ۔ مگر وہ پیسے نہیں ملے ۔ اب میں امی کے پاس دودھ کیسے لے کر جاؤں گا ۔ پھر وہ لڑکا اور زیادہ رونے لگا ۔ آفتاب سمجھ گیا کہ یہ تھیلی اسی بچے کی ہے ۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہوا کہ چلو تھیلی کا اصل مالک تو مل گیا ۔ آفتاب نے وہ تھیلی بچے کے ہاتھ میں تھماری اور کہا کہ یہ لو اپنے پیسے اور دودھ لے کر سیدھے گھر جانا! اس بچے نے جب اپنے پیسوں کی تھیلی کو دیکھا تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ اس نے آفتاب کا شکریہ ادا کیا اور دودھ لے کر اپنے گھر چلاگیا اور آفتاب جب دیر سے گھر پہونچا تو اس کی امی نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو آفتاب نے ساری بات اپنی امی کو بتائی اور اس کی امی نے اسے شاباشی دی اور نصیحت کی کہ ہمیشہ ایمانداری سے کام کرنا ۔ اس نے اپنی امی سے وعدہ کیا کہ وہ ہر کسی سے ایمانداری کرے گا ۔ پیارے بچو! آپ بھی آفتاب کی طرح ایماندار بنیں ، ہمارے ملک کو آفتاب جیسے ایماندار بچوںکی بہت زیادہ ضرورت ہے۔