ایف آر ڈی اے بل بینکنگ سسٹم ٹھپ کردیگا، ڈپازیٹرز فکرمند

عوام کی رقومات پر غاصبانہ قبضے کا منصوبہ
بینکنگ سسٹم کو کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کرنیکی پالیسی
عوام اور ملک کا معاشی نظام درہم برہم ہوجائے گا

حیدرآباد 26 ڈسمبر (سیاست نیوز) ملک کے بینکنگ نظام میں اصلاحات کے نام پر تیار ہونے والا بل عوامی مفاد میں نہیں بلکہ سرمایہ داروں کے لئے مددگار ثابت ہوگا اور ملک کا بینکنگ نظام اس مجوزہ بل سے مکمل طور پر کارپوریٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں چلا جائے گا جوکہ بینکنگ نظام کو خانگیانہ کی ایک سوچی سمجھی پالیسی مانی جارہی ہے۔ جی ہاں بات فینانشیل ریزولیشن اینڈ ڈپازٹ انشورنس بل (FRDA) کی ہے جس پر ملک کے ہر گوشہ میں بحث چھڑی ہوئی ہے اور بینکوں پر انحصار کرنے والا طبقہ خوف میں مبتلا ہوگیا ہے اور ماہرین کے مطابق اس بل سے عام آدمی کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے بلکہ اوسط، درمیانی آمدنی اور ملازم پیشہ طبقہ بُری طرح متاثر ہوگا۔ چونکہ اس بل کی قانونی شکل سے بینکوں میں جمع رقم اور ڈپازیٹرس سرکاری نگرانی سے ہٹ جائیں گے اور حکومت کی ڈپازیٹرز کو کوئی گیارنٹی نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ معاشی بحران اور بینکنگ شعبہ سے وابستہ افراد کا روزگار بھی تباہ ہوجائے گا۔ چونکہ اس بل میں چند فقرے انتہائی تشویشناک ہیں جس سے عام شہری اور ملازم پیشہ افراد کو بہت زیادہ پریشانی ہوگئی۔ حکومت موجودہ ڈپازیٹرز انشورنس اینڈ کریڈٹ گیارنٹی کارپوریشن کو ختم کرتے ہوئے فینانشیل ریزولیشن اینڈ ڈپازیٹرز انشورنس بل کو نافذ کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے جو راست طور پر بینکوں کے لئے فائدہ مند اور عوام و ملک کے معاشی نظام کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔

اس بل کی عمل آوری کیلئے ایک ادارہ فینانشیل ریزولیشن کمیشن نگرانکار رہے گا جس کو تمام اختیارات حاصل رہیں گے جو 13 رکنی کمیٹی پر مشتمل ہوگا۔ جن میں ریزرو بینک، نبارڈ، ……… اور گورنمنٹ آف انڈیا شامل رہیں گے جبکہ دیگر 9 اراکین کو حکومت ہند مقرر کرے گی۔ اگر کوئی بینک یا پھر انشورنس کمپنی دیوالیہ کے در پر ہے تو اس کمیٹی کو اختیار رہے گا کہ وہ بینک یا پھر انشورنس کمپنی کے اختیارات کو سلب کرتے ہوئے اس کو اپنی تحویل میں لے لے یا پھر اسے بند کردے یا پھر اس کو سنبھال لے۔ جبکہ اس زمرے میں ڈپازیٹرس کے لئے ان کی رقم کے متعلق کسی بھی قسم کی کوئی گیارنٹی نہیں دی گئی۔ بینک یا انشورنس کمپنی جب تک قائم رہیں گے اس وقت تک ہی ڈپازیٹرس کو اطمینان رہے گا بلکہ اب یہ اطمینان بھی ختم کردیا جارہا ہے۔ چونکہ بینک میں ڈپازیٹرز کی جمع رقم پر اب کسٹمر کا نہیں بلکہ بینک کا اختیار رہے گا۔ خواہ سیونگ کی رقم ہو یا پھر ڈپازٹ کی رقم ہو۔ کوئی ڈپازیٹر شادی بیاہ ، تعلیم و ترقی یا پھر بڑھاپے کے سہارے کے طور پر اپنے وقت سے اپنی رقم کو حاصل نہیں کرسکتا۔ شہریوں کے اس مفاد کو سخت نقصان پہونچے گا۔ اس مسئلہ پر تشویش کے ساتھ بحث چھڑی ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں معاشی ماہرین بھی اس بل کی سخت مخالفت کررہے ہیں۔ جبکہ بینک ایمپلائز فیڈریشن آف انڈیا نے اس بل کو موجودہ بینکنگ نظام کے لئے خطرناک قرار دیا اور کہاکہ اس بل کے بعد ملک کی بینکنگ نظام خٓنگی و کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے ہوجائے گا۔ ریاست آندھراپردیش اور تلنگانہ کے جنرل سکریٹری بینک ایمپلائز فیڈریشن آف انڈیا مسٹر وینکٹ رامیا نے کہاکہ حکومت کو اگر واقعی دیوالیہ بینکوں کو بچانے کی فکر ہے تو پھر قرض داروں سے قرض وصول کرنے کی کوشش کرے اور سخت سے سخت قانون تیار کرتے ہوئے بینکوں کو ادا شدنی کروڑہا روپئے کے قرضہ جات کی وصولی کے اقدامات کرے۔ اس نئے قانون سے بینکوں پر سے عوام کا بھروسہ ختم ہوجائے گا۔ انھوں نے کہاکہ سال 2008 ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد امریکہ اور یوروپی ممالک کی جانب سے اپنائے گئے فارمولہ کے تحت اس بل کو پیش کیا جارہا ہے لیکن ان ممالک میں بینکنگ شعبہ خانگیانہ کردیا گیا ہے جبکہ ملک کا موجودہ بینکنگ نظام 70 فیصد حکومت کے اختیار میں ہے۔ انھوں نے ایف آر ڈی اے قانون کو بھی اس پالیسی کا حصہ قرار دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں 116 لاکھ کروڑ روپئے بینکوں میں جمع ہیں۔ اس رقم پر کنٹرول کے لئے ہی ایف آر ڈی اے بلو پیش کیا جارہا ہے۔ انھوں نے عوام سے درخواست کی کہ اس بل کی مخالفت کی جائے۔ بل کے لئے نہ سہی بلکہ اپنے سرمایہ پونجی کے لئے ہی سہی مخالفت ہر شعبہ سے ضروری ہے تاکہ ملک کے معاشی نظام کو مزید بہتر بنایا جائے اور شہریوں کو راحت حاصل ہو۔