جمع رقم پر ایک لاکھ کے قریب انشورنس ، دیوالیہ کی صورت میں انشورنس کی سہولت ، بل پر تشویش غیر ضروری
حیدرآباد۔4جنوری(سیاست نیوز) بینکو ںمیں جمع رقومات کا موجودہ آر بی آئی قوانین کے اعتبار سے بھی ایک لاکھ تک کا انشورنس ہوتا ہے اور بینک کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں فی الحال ایک لاکھ روپئے ہی جاری کئے جا تے ہیں اسی لئے FRDI بل سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن عوام میں پھیلی سراسمیگی کی وجوہات حکومت کی جانب سے لئے جانے والے سخت معاشی فیصلہ ہیں جو لئے جارہے ہیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے قوانین کے مطابق اگر موجودہ نظام چلتا ہے تو اس میں کوئی خامی نہیں ہے لیکن اگر FRDI کا نفاذ عمل میں لایا جاتا ہے تو کیا صورتحال پیداہوگی یہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جب تک صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے بل کی نوعیت منظر عام پر نہیں آتی اس وقت تک یہ کہا جانا مشکل ہے۔ بینک عہدیداروں کا کہناہے کہ بینکوں سے رقومات منہاء کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے کیونکہ حکومت نے سال گذشتہ ہی نقد لین دین کی معاملتو ں میں حد متعین کردی تھی جس کے سبب اگر بینک سے رقم نکالی بھی جاتی ہے تو ایسی صورت میں کہیں اور سرمایہ کاری کیلئے مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔ ملک کے بینک کاری نظام کو بہتر بنانے کیلئے FRDI کو روشناس کروائے جانے کے منصوبہ کا جائزہ لینے والے بینک عہدیدارو ںکا ماننا ہے کہ حکومت کی جانب سے بینکوں کو تباہ ہونے اور دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے یہ اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن ان اقدامات کے سلسلہ میں مکمل تفصیلات منظر عام پر لائی جانی ضروری ہے ۔ بینک کاری نظام سے جڑے لوگوں میں اکثریت شخصی طور پر اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ ان کی دولت کہاں محفوظ ہے اور کس طرح ان کے سرمایہ کا بہترین منافع حاصل ہو سکتا ہے۔ جبکہ کارپوریٹ اداروں اور تجارتی گھرانوں کی جانب سے معاشی امور کی نگرانی کیلئے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ بتایاجاتاہے کہ بینکوں سے رقومات منہاء کرنے والوں کی جانب سے میچول فنڈ میں سرمایہ کاری کی اطلاعات جو موصول ہو رہی ہیں ان میں چھوٹے سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد ہے جو میچول فنڈ میں سرمایہ کاری کر رہی ہے جبکہ بڑے سرمایہ کاروں کو بینک کے ذریعہ ہی میچول فنڈ میں بھی سرمایہ کاری کرنی پڑتی ہے اور اس سرمایہ کاری کیلئے بینک کاری نظام سے جڑے رہنا ناگزیر ہے اسی لئے بینک عہدیداروں اور ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ بینک سے خطیر رقومات منہاء کرنے میں کوئی عقلمندی نہیں ہے کیونکہ جب خطیر رقومات منہاء کی جاتی ہیں تو ان کا خرچ مکمل نہیں کیا جاسکتا جس کی بنیادی وجہ نقد لین دین پر عائد امتناع ہے اور اگر کوئی کھاتہ دار خطیر رقم منہاء کرتا ہے تو وہ راست نقد رقم کی دوسری جگہ سرمایہ کاری نہیں کرسکتا اسی لئے یہ ضروری ہے کہ سرمایہ کار بینک میں ہی رقومات محفوظ تصور کریں۔ حکومت کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے اس بل کے متعلق کہا جا رہاہے کہ حکومت نے اس کے مسودہ کی تفصیلات جو جاری کی ہیں وہ مبہم ہیں اور ملک کے ماہرین معاشیات بھی اس بل کے مسودہ پر تبصرہ کرنے کے موقف میں نہیں ہیں کیونکہ اس بل میں موجود کئی ترمیم غیر واضح ہیں ۔ بینک عہدیداروں کا کہناہے کہ حکومت بینکوں میں جمع صارفین اور گاہکوں کی دولت کے استعمال جیسا سخت فیصلہ نہیں کرسکتی اور اس طرح کے سخت فیصلوں کی صورت میں ملک کی جمہوری بنیادیں دہل سکتی ہیں ۔ FRDIبل کے سلسلہ میں حکومت کے اقدمات کئے جانے کے بعد ہی یہ بات واضح ہوگی کہ نئے قانون کا فائدہ کس طرح ہوگا یا یہ عوام کے حق میں نقصاندہ ثابت ہوگی۔ بتایاجاتا ہے کہ حصص بازار میں ریکارڈ کی جانے والی تیزی کو دیکھتے ہوئے ملک کے معاشی نظام اور اتار چڑھاؤ سے واقف لوگ حصص بازار میں سرمایہ کاری میں مصروف ہیں اور وہ اپنی اس سرمایہ کاری کو محفوظ تصور کر رہے ہیں لیکن اس کے لئے بھی بینک کاری نظام سے جڑا رہنا ضروری ہے۔ حکومت ہند نے بینکوں کو خسارہ سے بچانے اور ان کو دیوالیہ ہونے سے محفوظ رکھنے کیلئے جو اقدامات کا فیصلہ کیا ہے ان کے متعلق اس بات کا تو عہدیدار اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ معاشی استحکام کے سلسلہ میں سخت اقدامات ثابت ہوں گے لیکن یہ کہنے سے گریز کیا جا رہاہے کہ حکومت کی جانب سے کئے جانے والے ان اقدامات کے نتائج کیا برآمد ہوں گے اور اس کے عوام اور معمولی کھاتہ داروں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟بتایاجاتاہے کہ اگر حکومت کی جانب سے بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے نگران اداروں کو یکجا کرتے ہوئے ایک کارپوریشن قائم کیا جاتاہے تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ہوسکتا ہے لیکن اس کے منفی نتائج کا جائزہ نہیں لیا جار ہا ہے جو کہ ملک کے معاشی نظام کو تباہ کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ مرکزی وزارت فینانس کے عہدیداروں کا ماننا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام بنیادی طور پر بازار سے نقد رقومات کے خاتمہ کا سبب بنے گا اور نقد لین دین میں بھاری کمی واقع ہوسکتی ہے جو کہ بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے علاوہ قرض نادہندگان کی جانب سے دیگر مقامات پر کی جانے والی سرمایہ کاری پر نظر رکھنے میں بھی معاون ثابت ہوسکتا ہے۔