ایف آر ڈی آئی بل مالیاتی اداروں کے استحکام میں معاون : حکومت

کھاتہ دار ، ڈیپازیٹرس کے بجائے مالیاتی اداروں کو ترجیح ، عوام کے لیے غیر موزوں : کانگریس
حیدرآباد۔3جنوری(سیاست نیوز) حکومت کا کہنا ہے کہ FRDI بل مالیاتی اداروں کی خستہ حالی کی صورت میں حالات کو معمول پر لانے میں کلیدی کردار اداکرے گا جبکہ معاشی ماہرین کا کہناہے کہ اس مقصد کے حصول کیلئے حکومت کی جانب سے تشکیل دیئے جانے والے کارپوریشن کی جانب سے قرض نادہندگان کے اثاثہ جات سے زیادہ سرمایہ کاروں اور کھاتہ داروں کی جمع دولت پر انحصار کیا جائے گا۔ حکومت ہند کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات پر اپوزیشن کے اعترضات کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ اس متنازعہ بل میں کھاتہ داروں اور ڈپازٹ کروانے والوں سے زیادہ مالیاتی اداروں کو تحفظ فراہم کرنے اور انہیں بچانے پر زور دیا جا رہا ہے جو کہ ملک کے عوام کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ بل میں موجود مسائل کے متعلق ماہرین نے توجہ دہانی کرواتے ہوئے یہ ادعا کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے جو ریزولیوشن کارپوریشن کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی اس کے ذریعہ عوامی دولت جو بینکو ںمیں جمع ہے وہ خطرہ میں پڑ سکتی ہے کیونکہ کارپوریشن بینکوں سے قرض حاصل کرنے والے کارپوریٹ اداروں کے قرضہ جات سے جب بینک تباہ حالی کا شکار ہوں گے اس وقت غریب عوام کے پیسہ کا استعمال کرتے ہوئے ان مالیاتی ادارو ںکو بچانے کے اقدامات کرے گی جو مالیاتی اداروں کو تباہ ہونے اور دیوالیہ ہونے سے بچا لے گا لیکن عوام کی جو دولت مالیاتی ادارو ںمیں جمع ہوگی وہ پھنس جائے گی۔ ایف آر ڈی آئی بل میں حکومت نے کارپوریشن کو اس بات کا بھی اختیار دیا ہے کہ وہ ایک لاکھ روپئے تک کا جو انشورنس فراہم کیا جا رہاہے اس میں تخفیف بھی کرسکتی ہے اور اس کے علاوہ بینکو ںمیں جمع رقومات کے تحفظ اور اس کے انشورنس کے لئے کارپوریشن کی جانب سے بینکوں کو اس بات کا اختیار دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے کھاتہ داروں سے انشورنس کے پریمیم کی فیس وصول کرے جو کہ بینکوں کی آمدنی میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ بتایاجاتاہے کہ اس بل کے روشناس کروائے جانے کے بعد ملک کا مکمل معاشی و مالیاتی نظام حکومت کا مرہون منت ہوکر رہ جائے گا اور اگر کسی دن ناقص معاشی حکمت عملی کے سبب معاشی بحران پیدا ہوگا تو مکمل ملک معاشی بحران کا شکار ہوجائے گاجس کے اثرات ملک کے غریب طبقہ پر بھی ہونے لگیں گے۔ حکومت کی جانب سے بتائے جانے والے فوائد میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر کسی بھی مالیاتی ادارہ کی حالت ابتر ہوتی ہے تو اسے کسی اور ادارہ میں ضم کرتے ہوئے اس مالیاتی ادارہ کو بچایاجاسکتا ہے اور عوامی دولت کو محفوظ کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کے اس استدلال کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر کسی ادارہ یا بینک کی حالت اس حد تک خراب ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں کیا عوامی سرمایہ یا کھاتہ داروں کی رقومات فی الفور جاری کی جائیں گی ؟ اس سوال کا جواب بل میں مبہم ہونے کے سبب یہ نہیں کہا جا رہاہے بلکہ یہ کہا جانے لگا ہے کہ سرمایہ کاروں اور کھاتہ داروں کی دولت محفوظ رہے گی۔ بل کی مخالفت کرنے والوں کا کہناہے کہ دولت محفوظ رہے گی ٹھیک ہے لیکن کیا ضرورت کے وقت کھاتہ دار اپنی دولت خود استعمال کرسکتا ہے تو اس کی بل میں کوئی وضاحت نہیں ہے جس کے سبب اپوزیشن اس بل کو مخالف عوام قرار دیتے ہوئے اسے کارپوریٹ طبقہ کے لئے تحفہ قرار دے رہی ہے۔ قانون سازی کے بعد جو صورتحال پیدا ہوگی اور جس کارپوریشن کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی اس میں مرکزی حکومت کے عہدیداروں اور متعلقہ محکمہ جات کے عہدیداروں کی موجودگی سے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ کارپوریشن آزادانہ طور پر خدمات انجام نہیں دے پائے گا بلکہ حکومت کے اشاروں اور پالیسی پر ہی گامزن رہے گا۔ حکومت کا ماننا ہے کہ اگر اس قانون کو نافذ کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ جو اس قانون کے دائرہ میں شامل ہے وہ اچانک سے دیوالیہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے دیوالیہ ہونے سے قبل صورتحال کا اندازہ لگایاجاسکے گا۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر ایف آر ڈی آئی کو روشناس کروایاجاتاہے تو ایسی صورت میں حالات یکسر تبدیل ہونے لگ جائیں گے اور تجارتی ترقی کا جائزہ لینے میں ہونے والی دشواریاں دور ہوجائیں گی ۔ وزارت فینانس کے مطابق ایف آر ڈی آئی ملک میں عوامی دولت کے تحفظ کے علاوہ تجارتی ترقی اور ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ کا باعث بنے گا اور اس قانون کے نفاذ کی صورت میں قرضہ جات حاصل کرتے ہوئے بینکوں کو دھوکہ دینے والوں کے اثاثہ جات کی فروخت میں حائل ہونے والی رکاوٹیں دور ہونے لگیں گی جس سے بینک کو نقصانات سے بچایا جاسکتا ہے۔بل کے متعلق حکومت کا یہ بھی دعوی ہے کہ جب سرمایہ کار ملک میں اپنے سرمایہ کو محفوظ تصور کرنے لگیں گے تو بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا جو کہ ملک کے معاشی استحکام میں انتہائی اہم رول ادا کرے گا جس کے سبب ملک میں گھریلو شرح پیداوار میں بھی اضافہ ریکارڈ کئے جانے کے قومی امکان ہیں۔