ایفائے عہد

ایفائے عہد انسان کی ایک اعلیٰ صفت ہے اور شرافت نفس کی نمایاں علامت ہے۔ یہ دوستی اور تعلق کے رشتوں کو مضبوط بناتا ہے، اعتماد کی بنیاد کو مستحکم کرتا ہے اور انسان کے ضمیر کو وہ طمانیت دیتا ہے، جو زندگی بھر انسان کے ساتھ رہتی ہے اور اس کی دِلی مسرتوں کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نصیحت ہے کہ ’’عہد و پیمان کی میخوں کو مضبوط کرو‘‘۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اچھی باتوں کی نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’وعدہ کرو تو اسے پورا کرو اور کسی سے ایسا وعدہ نہ کرو، جو پورا نہ کرسکو‘‘۔ وعدہ شکنی اور وعدہ خلافی نفاق کا سرچشمہ ہے اور نفاق وہ بیج ہے، جس سے فتنہ و فساد کا درخت اُگتا ہے۔ جھوٹے وعدے دو بڑے گناہوں کا مجموعہ ہوتے ہیں، ایک جھوٹ اور دوسرے وعدہ خلافی۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ ’’وہ شخص بدنصیب ہے، جسے کوئی دوست نہ ملے اور وہ اس سے بھی زیادہ بدنصیب ہے، جسے دوست ملے اور وہ اسے کھودے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ادریس علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جب اللہ کے دو بندے آپس میں سچائی کے ساتھ کوئی وعدہ کرتے ہیں تو خدائے تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے، مگر شرط ہے سچائی اور خلوص کی‘‘۔
ایفائے عہد کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وعدہ کرکے گیا کہ وہ جلد ہی واپس آئے گا، مگر گھر جاکر بھول گیا اور تین دن بعد جب واپس آیا تو اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ موجود پایا، جہاں آنے کا وعدہ کرکے گیا تھا۔ آپﷺ نے اس شخص سے صرف اتنا ہی فرمایا کہ ’’تونے مجھے تکلیف دی‘‘ لیکن اس واقعہ سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ وعدہ وفا کرنا کتنا ضروری ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ ایفائے عہد کی خاطر لوگوں نے اپنی جان تک دے دی۔ اگر زبانیں ایک قوم کی ثقافت کی آئینہ دار ہیں تو ہماری زبان کی یہ کہاوت کہ ’’جان جائے پر وچن نہ جائے‘‘ ایفائے عہد کے سلسلے میں ہمارے تہذیبی اقدار کی آئینہ دار ہے۔