۔28 نشستوں پر مسلم انتخاب یقینی ۔اکھیلیش اور راہول کے یکجا ہوجانے پر بی ایس پی کے ساتھ بی جے پی بھی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور
لکھنؤ ۔ 7 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) اب جبکہ ایس پی ۔ کانگریس اتحاد ابتدائی رکاوٹوں کے بعد ٹھوس انداز میں پیشرفت کررہا ہے، بی ایس پی اور بی جے پی کو اترپردیش مغربی پٹی میں اپنی حکمت عملی ازسرنو ترتیب دینے پر مجبور ہونا پڑا ہے، جہاں مسلم رائے دہندے قابل لحاظ طاقت ہیں۔ مغربی یوپی میں 140 اسمبلی حلقے 26 اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں جہاں رائے دہی ابتدائی دو مرحلوں میں 11 اور 15 فبروری کو ہونے والی ہے۔ بی ایس پی جسے یادو فیملی میں خلفشار کے تناظر میں زبردست انتخابی فائدہ حاصل ہونے کی توقع تھی اور وہ بی جے پی کیلئے طاقتور متبادل کے طور پر ابھرنے کا سوچ رہی تھی لیکن ہندوستانی سیاست کے دو نوجوان چہرے اکھیلیش اور راہول یکجا ہوجانے پر بڑا جھٹکا لگا کیونکہ یہ دونوں قائدین کا زعفرانی پارٹی کے ساتھ ماضی میں کبھی گٹھ جوڑ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے دل جیتنے کیلئے بی ایس پی نے ابتدائی دو مرحلوں میں 50 مسلم امیدوار انتخابی میدان میں اتارے گئے کیونکہ اس کا احساس ہیکہ مسلم ووٹوں کے ساتھ ساتھ خود اس کے کلیدی دلت ووٹ بینک دونوں مل کر اس کے امیدواروں کو کامیاب کرائیں گے۔
تاہم ایس پی اور کانگریس کا اتحاد ہوجانے کے بعد مسلم کمیونٹی کو ایک نیا متبادل فراہم ہوا ہے اور بلاشبہ بی ایس پی اب ان کیلئے واحد ترجیحی جماعت نہیں رہی۔ ایس پی کیلئے بھی مسلمانوں کی اہمیت ہے جو اس بات سے ظاہر ہیکہ مغربی یوپی کی 140 نشستوں میں سے 42 پر انہوں نے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہیکہ ابتدائی دو مراحل کی 28 نشستوں پر بی ایس پی اور ایس پی دونوں نے مسلم امیدواروں کو کھڑا کیا ہے۔ اگر مایاوتی زیرقیادت پارٹی برسراقتدار آنے پر فسادات سے پاک اور جرائم سے پاک ریاست فراہم کرنے پر توجہ دے رہی ہے تو وہیں ایس پی اتحاد بی ایس پی کی تاریخ کے صفحات الٹ رہا ہے، بالخصوص زعفرانی پارٹی کے ساتھ جس کے اتحاد کی باتوں کو نمایاں کیا جارہا ہے۔ سماج وادی پارٹی ایک لیڈر نے استفسار کیا کہ کیا مسلم کمیونٹی کبھی مایاوتی کو معاف کرسکتی ہیکہ اپنی حکمرانی کے دوران 43 نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزامات پر جھوٹے طور پر ماخوذ کیا جسے ابھی تک ثابت نہیں کیا جاسکا۔ بی ایس پی کی اکھیلیش یادو کو مخالف مسلم قرار دینے کوشاں ہیں کیونکہ پارٹی میں نئے نئے شامل ہونے والے افضل انصاری مافیا ڈان سے سیاستدان بن جانے والے مختار انصاری کے بھائی ہیں۔
بی ایس پی نے ملائم سنگھ یادو کے ایک بیان کا حوالہ دیا کہ اکھیلیش مسلمانوں کے مفاد کے خلاف کام کررہے ہیں۔ انصاری نے مخالف مسلم اکھیلیش کے خلاف مہم چلانے کا عزم کیا ہے۔ شاید مسلم ووٹوں کی اہمیت ہی ہے کہ ایس پی نے چودھری اجیت سنگھ زیرقیادت آر ایل ڈی کے ساتھ انتخابی اتحاد میں بہت کم دلچسپی دکھائی کیونکہ وہ بنیادی طور پر جاٹ ووٹ بینک والی پارٹی ہے۔ ایس پی کے داخلی ذرائع نے کہا کہ مظفرنگر فسادات کے دوران جاٹ بمقابلہ مسلمان معاملہ پیش آیا اور اکھیلیش یادو کو اس کمیونٹی پر مبینہ ظلم کرنے والوں کے ساتھ انتخابی اتحاد میں دلچسپی نہیں ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کو ایس پی ۔ کانگریس اتحاد کے پس پردہ مسلمانوں کی ممکنہ طاقت کے جواب میں ہندوؤں کے یک جٹ ہوجانے کی امید ہے۔ حکم سنگھ، سنگیت سوم، سریش رانا، سنجیو بلیان، یوگی ادتیہ ناتھ اور رامچندر کٹیریا جیسے موافق ہندوتوا قائدین انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور مغربی خطہ سے ہندوؤں کی نقل مکانی کے مسئلہ کا بی جے پی منشور میں تذکرہ بھی کیا ہے۔