ایس سی ۔ ایس ٹی انسداد مظالم قانون

تسکین غم تو دیتے رہے وہ ہمیں مگر
خود اپنے دردِ دل کی دوا سوچتے رہے
ایس سی ۔ ایس ٹی انسداد مظالم قانون
درج فہرست ذاتوں اور قبائیلوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کیلئے ایس ٹی ایس سی انسداد مظالم قانون لایا گیا تھا لیکن اس قانون کے بیجا استعمال کی شکایت کے بعد سپریم کورٹ نے قانون میں کچھ نرمی فراہم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کسی بھی طرح کی ازخود گرفتاری کو روک دیا اور قبل از وقت گرفتاری ضمانت حاصل کرنے کی دفعہ بھی متعارف کروائی۔ قانون سازوں اور قانون دانوں کے درمیان بڑھتی دوری نے سماج کے ایک بڑے حصہ میں بے اطمینانی بھی پیدا کردی ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قانون بنانے والوں کو عام زندگیوں میں ہونے والے واقعات اور ان کی سنگینیوں کا حقیقی اندازہ نہیں ہوتا یا پھر وہ سماجی ضرورتوں، تقاضوں سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے ایسے میں جو قانون بن کر سامنے آتا ہے اس کی خرابیوں اور زیادتیوں پر سماج کے چند گوشوں کی جانب احتجاج کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایسے ہی قانون کے بیجا استعمال کے واقعات کا نوٹ لیتے ہوئے ایس سی ؍ ایس ٹی مظالم قانون میں راحت لانے کا فیصلہ کیا، جس کی اب سیاسی گوشوں سے مخالفت کی جارہی ہے۔ کانگریس کے بشمول تمام پارٹیوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر آواز اٹھائی ہے۔ مرکز پر زور دیا جارہا ہیکہ وہ سپریم کورٹ میں درخواست نظرثانی داخل کرے۔ اس قانون کے تحت اب تک جو کچھ بھی کیس درج کئے گئے اور مظالم کی شکایات کی گئی تھیں، ان میںسے بیشتر کے تعلق سے پتہ چلا کہ یہ جھوٹے مقدمات تھے اور اس قانون کا بیجا استعمال کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر اور سابق میں اس قانون کے غلط استعمال کے واقعات کا جائزہ لیکر ہی فیصلہ سنایا ہے۔ اب پولیس کو کسی بھی فرد کے خلاف دلتوں پر مظالم کی شکایت کی صورت میں فوری کارروائی کا اختیار نہیں رہے گا بلکہ پولیس کسی کارروائی سے قبل ابتدائی تحقیقات کرے گی۔ دلتوں نے خاص کر سیاسی پارٹیوں سے وابستہ دلت لیجسلیٹرس نے پارٹی خطوط سے بالاتر ہوکر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہیکہ اس سخت ترین قانون کی وجہ سے جس میں ضمانت کی ہرگز گنجائش نہیں تھی، کئی موقع پر غلط استعمال کیا گیا ہے۔ قومی جرائم ریکارڈس بیوریو ڈیٹا کے مطابق اس قانون کے تحت 2015ء میں داخل کردہ تمام شکایتوں کے منجملہ 15 تا 16 فیصد شکایات جھوٹی ثابت ہوئیں اور جن مقدمات کی عدالتوں میں سماعت ہوئی ان میں سے 75 فیصد مقدمات میں ملزمین کو بری کردیا گیا۔ کئی مقدمات واپس لئے گئے۔ حال ہی میں ہندوستانی کرکٹ کھلاڑی ہاردک پانڈیا کا بھی کیس سامنے آیا تھا جس میں شکایت کی گئی تھی کہ پانڈیا نے سوشیل میڈیا پر غلط تبصرہ پوسٹ کیا ہے جس سے ڈاکٹر بی آر امبیڈکرکی توہین ہوتی ہے اور اس سے دلت طبقہ کی دل آزاری ہوئی ہے۔ اسی لئے ایس سی ؍ ایس ٹی قانون کو تیار کرنے سے پہلے ہی اس بات کو ذہن میں رکھا گیا تھا کہ سماج کے کمزور طبقہ کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے لیکن جب قانون نافذ العمل ہوا تو یہ قانون چند لوگوں کیلئے آپسی دشمنی یا ذاتی مخاصمت نکالنے کا آلہ کار بن گیا۔ بعض دفعہ جرائم پیشہ دلت افراد نے اس قانون کو اپنے بچاؤ کیلئے استعمال کیا اور پولیس ملازمین یا دیگر سرکاری عہدیداروں کو ڈرانے، دھمکانے یا بلیک میل کرنے کیلئے قانون کا غلط استعمال کیا جانے لگا۔ نتیجہ میں قانون لانے کا مقصد دم توڑتا دکھائی دیا۔ اب جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے قانون کی رو سے غلط یا بیجا استعمال کی گنجائش ختم کردی گئی ہے تو حکومت کو چاہئے وہ یکساں سماجی انصاف کو یقینی بنانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر اس کے فیصلہ کی روشنی میں کچھ ترمیمات انجام دینے کی خواہش کرے۔ درخواست نظرثانی کیلئے بھی زور دیا جارہا ہے۔ بعض پارٹیوں نے خاص کر کانگریس، سی پی آئی ایم اور خود حکمراں پارٹی بی جے پی کے بعض ارکان نے مسئلہ کو ساتھی ارکان کے سامنے رکھا ہے۔ قانون کو کمزور بنادیئے جانے کی شکایت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ بی جے پی کے کئی دلت ارکان پارلیمنٹ نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اپنی بے چینی کا اظہار کیا ہے اب سوال یہ ہیکہ آیا مودی حکومت اس فیصلہ کیخلاف درخواست نظرثانی داخل کرتی ہے تو اس پر سپریم کورٹ کا کیا ردعمل ہوگا اگر درخواست مسترد ہوتی ہے تو عین انتخابات کے سال حکمراں پارٹی کو شدید دھکہ پہنچے گا۔
عام آدمی پارٹی کو راحت
اروند کجریوال زیرقیادت عام آدمی پارٹی کو بالآخر قانون سے راحت مل گئی۔ دہلی ہائیکورٹ کے حکمراں پارٹی نے آج ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دینے الیکشن کمیشن کی سفارش اور صدرجمہوریہ کی جانب سے توثیق کے معاملہ کو کالعدم قرار دیا۔ عدالت نے عام آدمی پارٹی کے ارکان اسمبلی کے ساتھ کی گئی ناانصافی کا نوٹ لیتے ہوئے اسے فطری انصاف کی خلاف ورزی قرار دیا۔ مرکز نے ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دینے کیلئے جو اعلامیہ جاری کیا وہ خراب قانون کی بدترین مثال ہے۔ ایک منتخب رکن اسمبلی کو اس کی بات سنے بغیر نااہل قرار دیا جانا سنگین ترین کوشش تھی۔ اب اروند کجریوال کو یہ موقع ملا کہ وہ الیکشن کمیشن کے ذمہ داروں کی موافق مرکز کارروائی کرنے پر اخلاقی طور پر اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کیلئے زور دے۔ دہلی ہائیکورٹ نے مرکز کے منہ پر قانون کا طمانچہ مار کر یہ واضح کردیا کہ کوئی بھی دستوری ادارہ عوام کے خط اعتماد کو ہائی جیک نہیں کرسکتا۔ جب کوئی دستوری ادارہ سیاسی آقاؤں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن جاتا ہے تو اسی طرح کی خرابیاں سامنے آتی ہیں۔ آج سارا ملک دیکھ رہا ہیکہ مرکز کی نریندری مودی حکومت نے الیکشن کمیشن کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اپنے حریفوں کو ناکام بنانے کی ناپاک سازش کی تھی۔ بلاشبہ عدالت کا فیصلہ عام آدمی پارٹی کی جیت ہے بلکہ اسے عوام کی فتح قرار دیا جارہا ہے۔ اسپیکر دہلی اسمبلی نے بھی 20 ارکان اسمبلی کو ایوان میں حاضر رہنے کی اجازت دیدی ہے تو یہ اروند کجریوال اور ان کی پارٹی کے ارکان کی قانونی جیت ہے جو ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں اپنا اہم مقام بنائے گی۔