ایس آئی ٹی نہیں سی بی آئی

نا امیدی میں مجھے کیسی خبر دیتا ہے
لاکے وہ خط جو مرے ہاتھ میں دھر دیتا ہے
ایس آئی ٹی نہیں سی بی آئی
مسلم نوجوانوں کے فرضی انکاونٹر کے بعد حکومت تلنگانہ سے جو توقعات وابستہ کی جارہی ہیں اس بارے میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ حکومت کل یہ کہہ سکے گی کہ اس انکاونٹر میں پولیس نے کس منصوبہ کے تحت مسلم نوجوانوں پر فائرنگ کی ہے یا اس نے ماورائے قانون و اختیارات کاروائی کی تھی۔ واقعی یہ سوچنے کی بات ہے کہ جس معاشرے میں کچھ بھی باقاعدہ طور پر کسی منصوبہ یا پلان کے تحت نہیں ہوسکتا وہ معاشرہ یا حکومت ہر وقت آزمائش کی نوک پر رہتا ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راو نے 7 اپریل کو ہوئے انکاونٹر کی تحقیقات کیلئے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دینے کافیصلہ کیا ہے ۔ چیف سکریٹری راجیو شرما کو دی گئی ہدایت کے مطابق ‘ایس آئی ٹی کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کی بعض تنظیموں کی جانب سے ظاہر کردہ شبہات کو مد نظر رکھ کر فرضی انکاونٹر کی تحقیقات کروائی جائے گی۔ سی بی آئی یا کسی عدالتی تحقیقات سے گریز کرتے ہوئے چیف منسٹر نے اپنی حکومت کو فی الحال اس صورتحال سے بچا کر نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے جب حکومت کی نمائندہ جماعت موجود ہو تو حکومت کو ایسی کوئی پریشانی ارچن نہیں ہوگی جس سے یہ یقین ہوجائے کہ مسلمانوں کی طاقت نے اس حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھدی ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان موجود سیاسی ارکان کے اختیار کردہ موقف کے بارے میں وضاحت کرنے کا یہ جواز بھی ہوگا کہ انہوںنے انکاونٹر کے واقعہ کے بعد جو کچھ کیا وہ مسلمانوں کے مفادات کی خاطر کیا جبکہ یہ لوگ اپنے جماعتی و سیاسی مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں اس پس منظر میں ہی حکومت تلنگانہ کے ایس آئی ٹی تحقیقات فیصلہ کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ مایوسی کے اس اندھیرے میںجب آپ کو یہ معلوم ہو کہ آپ کے لیڈروں نے مسلم نوجوانوں کو پولیس سے بچانے کیلئے کتنی کوشش کی ہے تو نتیجہ مزید تاریکی کی شکل میں نمودار ہوگا ۔ یہ لوگ برسوں سے یہی سوچ کر سیاسی سطح پر سرگرم ہیں گویا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں۔ جس فرضی انکاونٹر کی سی بی آئی تحقیقات کی ضرورت تھی وہاں صرف ایس آئی ٹی کی تشکیل سے اکتفا کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت نے اسے قبول بھی کرلیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں نے اب تک خاصے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور سچی بات یہ بھی ہے کہ اس تحمل سے عوامی سطح پر کمزوری اور بے بسی کا تاثر ابھر رہا ہے۔ حکومت جب کسی واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیتی ہے تو متعلقہ آفیسروں اور اہلکاروں کو بدل دیتی ہے۔ تلنگانہ حکومت کے بارے میں منفی خیال رکھنا انکاونٹر کی تحقیقات محض وقت کے زخم پر مرہم رکھنے کی ایک کوشش ہے تو اس پہلو کو تھوڑی دیر کیلئے نظر انداز کرتے ہوئے اس امر پر توجہ کیجئے کہ مسلم قائدین نے اس واقعہ سے دامن بچاتے ہوئے ایک سوچا سمجھا قدم اٹھایا اور حکومت سے سطحی نمائندگی کی جس کے بعد ہی حکومت نے سی بی آئی یا عدالتی تحقیقات کا فیصلہ کرنے کے بجائے ایس آئی ٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ اس ایس آئی ٹی میں تلنگانہ پولیس کے ہی آفیسر ہوں گے جو اپنے ساتھیوں کے گناہوں کو پوشیدہ رکھنے کیلئے رپورٹ تیار کریں گے ۔ انصاف کا تقاضہ پورا نہیں ہوگا ۔ وقت گذرنے کے بعد مسلمان ہمیشہ کی طرح ہر بڑے سانحہ کو فراموش کرتے ہوئے آلیر انکاونٹر کو بھی بھول جائیں گے۔ بہر حال مسلم نوجوانوں کا انکاونٹر واقعہ سی بی آئی تحقیقات کا متقاضی ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سی بی آئی تحقیقات کا حکم دے اور مسلمانوں کی امیدوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش نہ کرے ۔ حکومت ان نام نہاد مسلم قائدین کی خاطر اپنے موافق مسلم موقف کو بدنام ہونے نہ دے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ فرضی انکاونٹر کا حل یہی ہے کہ اس کی سی بی آئی تحقیقات کرائی جانی چاہئے۔ یہاں پولیس کی جانب سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا سوال ہے ۔ اس مسئلہ کی فوری یکسوئی خاطی پولیس ملازمین کو سزا دینے سے ہی انصاف کا تقاضہ پورا ہوگا ۔ مسلم نوجوانوں کو عدالت سے دہشت گرد قرار دیئے جانے سے قبل ہی پولیس نے انہیں موت کی نیند سلادیا اور حکومت نے ایس آئی ٹی تشکیل دینے کا اعلان کر کے حالات کی سنگینی کو نظر اندازکردیا۔