گوشۂ دل میں جگہ دو نہ کبھی نفرت کو
ایک شعلہ کئی گھر بار جَلا دیتا ہے
ایران ۔ عالمی طاقتوں کا نیوکلئیر معاہدہ
دنیا کی چھ بڑی طاقتوں اور ایران کے مابین بالاخر آخر الذکر کے نیوکلئیر پروگرام کے تعلق سے ایک معاہدہ ہوگیا ہے جس کے بعد ایران پر عائد سخت ترین معاشی تحدیدات میں نرمی اور بتدریج ان کی برخواستگی کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ ایران کے نیوکلئیر پروگرام کے تعلق سے جن تفصیلات پر ان عالمی طاقتوں نے اتفاق کیا ہے وہ فی الحال ایک خاکہ ہے اور اس کو 30 جون تک ایک قطعی معاہدہ کی شکل دیدی جائیگی ۔ اس معاہدہ پر حالانکہ ملا جلا رد عمل سامنے آ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک شاندار کامیابی ہے ۔ اسے صرف ایران کی کامیابی بھی نہیں کہا جاسکتا اور نہ اسے عالمی طاقتوں کی شکست کہا جاسکتا ہے ۔ علاقہ میں حالات کو کشیدگی سے بچانے اور امریکہ و دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ ایران کے تعلقات کو مستحکم کرنے اور اس پر عائد معاشی پابندیوں کو ختم کرنے کی سمت یہ ایک اچھی پیشرفت ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے اس معاہدہ کا خیر مقدم کیا ہے ۔ انہوں نے اسے ایک اچھی کامیابی قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے حالات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ تاہم اس معاہدہ پر یہودی مملکت اسرائیل چراغ پا ہے ۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے معاہدہ میں حالانکہ ایران کی نیوکلئیر سرگرمیوں پر ایک حد تک ضرور رکاوٹیں عائد کی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود کئی نیوکلئیر ہتھیار رکھنے والا صیہونی ملک اسرائیل اس پر برہم ہے ۔ وزیر اعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو نے اس معاہدہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فوجی عہدیداروں کے ساتھ صورتحال پر غور کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ ایران کے حق میں زیادہ فراخدل ہے اور اس کے نتیجہ میں اسرائیل کے بقا پر سوال پیدا ہوگیا ہے ۔ اسرائیل اور ایران کے مابین تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں اور اسرائیل ہمیشہ ہی ایران سے خوفزدہ رہا ہے ۔ عالمی طاقتوں کو ایران کے نیوکلئیر پروگرام کے خلاف مشتعل کرنے اور انہیں ایران پر دباؤ ڈالنے کیلئے حالانکہ اسرائیل نے ہی زور دیا تھا اور اب جبکہ یہ معاہدہ ہوگیا ہے تو اسرائیل اسے قبول کرنے تیار نہیں ہے ۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ ایران کے تمام نیوکلئیر ذخائر اور اس کی تنصیبات کو ختم کردیا جائے ۔
حالانکہ ابتداء میں عالمی طاقتوں نے ایران کے تعلق سے سخت گیر موقف ہی اختیار کیا تھا لیکن ایران نے بہترین سفارتی کوششوں کے نتیجہ میں یہ معاہدہ کرلیا ہے جو ایک طرح سے اس کی کامیابی بھی کہا جاسکتا ہے لیکن اسے امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کی شکست سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔اس معاہدہ سے ایک پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کی مخالفتوں کے باوجود ایران کے نیوکلئیر پروگرام کو قبول کرلیا ہے ۔ حالانکہ انہوں نے اس پر کچھ تحدیدات عائد کی ہیں اور معاہدہ کے مطابق ایران اپنے نیوکلئیر یورانیم افزودگی کے عمل کو صرف محدود حد تک جاری رکھ سکتا ہے اور بین الاقوامی جوہری توانائی کا ادارہ بھی ایران کے نیوکلئیر پروگرام کی نگرانی کا مجاز گردانا گیا ہے ۔ اس کے اختیارات میں قدرے وسعت بھی آگئی ہے اس کے باوجود ان عالمی طاقتوں نے معاہدہ کے ذریعہ ایران کے نیوکلئیر پروگرام کے حق کو تسلیم کرلیا ہے اور اس اعتبار سے یہ ایران کی سفارتی کامیابی ضرور کہی جاسکتی ہے ۔ اس معاہدہ سے قبل ایرانی اور عالمی طاقتوں کے مندوبین نے جس دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کو مقررہ مہلت سے آگے تک لیجانے کی کوشش کی وہ بھی مثبت کہی جاسکتی ہے ۔ مصالحت کاروں نے اپنے اپنے موقف کو پیش کرنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے معاہدہ کو یقینی بنانے کیلئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور اس کے نتیجہ میں قطعی معاہدہ کا ایک خاکہ تیار ہوگیا ہے ۔
اس معاہدہ کے نتیجہ میں ایران پر مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ تحدیدات میں نرمی کی گنجائش ضرور پیدا ہوگئی ہے حالانکہ فرانس کا کہنا ہے کہ ابھی ان تحدیدات میں نرمی پیدا کرنے کے تعلق سے کسی وقت کا تعین نہیں کیا گیا ہے ۔ جب اصل اور بنیادی مسئلہ پر اتفاق رائے ہوگیا ہے اور قطعی معاہدہ کی سمت پیشرفت ہو رہی ہے تو جلد یا بدیر تحدیدات میں نرمی بھی پیدا ہوجائیگی ۔ اس کی گنجائش ضرور نکل آئی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اس پر چراغ پا ہے ۔ حالانکہ ایران کے نیوکلئیر پروگرام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ اپنے وجود کے تعلق سے غیر ضروری ہوا کھڑا کرنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے ۔ عالمی طاقتوں کو اب اسرائیل کے پروپگنڈہ کا شکار ہونے کی بجائے اس مسئلہ پر ایران کی سنجیدگی کی ستائش کرنے کی ضرورت ہے ۔