واشنگٹن؍ جنیوا۔ 24؍نومبر (سیاست ڈاٹ کام)۔ ایران نے آج اپنے نیوکلیئر پروگرام کے تعلق سے عالمی طاقتوں کے ساتھ تاریخی معاملت طئے کی ہے۔ ایران کو تحدیدات کے معاملہ میں جہاں کسی قدر راحت ملے گی، وہیں اس نے نیوکلیئر پروگرام پر بعض سمجھوتوں سے اتفاق کیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی کامیابی تصور کی جارہی ہے، کیونکہ ایران اور مغربی ممالک کے مابین اس تنازعہ پر کافی عرصہ سے تعطل چلا آرہا ہے۔ P5+1 ممالک یعنی امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی کے نمائندوں نے ایران کے ساتھ چار دن کے مذاکرات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور جنیوا میں ایک معاہدہ طئے پایا۔ یوروپی یونین خارجہ پالیسی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے معاملت کا رسمی طور پر اعلان کیا۔ ایران نے انسپکٹرس کو رسائی اور یورینیم افزودگی کے بعض کاموں کو روک دینے سے اتفاق کیا ہے، لیکن ایرانی مذاکرات کاروں نے کہا ہے کہ نیوکلیئر توانائی کا انھیں اب بھی حق حاصل ہے۔ اس کے جواب میں چھ ماہ تک ایران پر نئی نیوکلیئر تحدیدات عائد نہیں کی جائیں گی۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے قوم سے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے اس معاہدہ کو غیر معمولی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ اس سے ایران کو نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے سے روکنے میں مدد ملے گی۔ اوباما نے کہا کہ آج امریکہ اور ہمارے قریبی حلیف ممالک نے مل کر ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر تشویش کو دُور کرنے اور اس کا ایک مؤثر حل تلاش کرنے کی سمت نمایاں پیشرفت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ڈپلومیسی دنیا کے لئے ایک نئی راہ کھولنے میں مددگار ہوگی جس سے یہ دنیا مزید محفوظ ہوجائے گی۔ مستقبل میں اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام پُرامن اغراض کے لئے ہے اور وہ نیوکلیئر ہتھیار تیار نہیں کرے گا۔ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری جو کل جنیوا مذاکرات میں شریک ہوئے، کہا کہ یہ معاہدہ نہ صرف اس علاقہ بلکہ اس کے حلیفوں بشمول اسرائیل کو محفوظ بنادے گا۔ صدر ایران حسن روحانی نے اس معاہدہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نئی راہیں کھلیں گی۔ انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ تعمیری مذاکرات اور فریقین کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ یہ ہمارے لئے نیوکلیئر پروگرام کی پُرامن نوعیت کے بارے میں شبہات کو دُور کرنے کا بہترین موقع ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ صرف پہلا قدم ہے، تاہم انھوں نے واضح طور پر کہا کہ ایران یورینیم افزودگی کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔ حکومت اسرائیل نے اس معاملت پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ اسرائیل اس معاہدہ کا پابند محسوس نہیں کرتا۔ وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک خراب معاہدہ ہے جس میں ایران کو وہ چیز دی گئی جو وہ چاہتا تھا۔ تحدیدات کی جزوی برخاستگی نیوکلیئر پروگرام کا ضروری حصہ تھا۔ (متعلقہ خبریں صفحہ 4 پر)