واشنگٹن 29 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) صدر امریکہ بارک اوباما نے آج عہد کیاکہ امریکی کانگریس میں ایرانی متنازعہ نیوکلیر پروگرام کچلنے کیلئے اگر کوئی تازہ تحدیدات کا قانون منظور کیا جائے تو وہ اُسے مسترد کردیں گے۔ امریکی کانگریس سے اپنے چھٹے سالانہ خطاب میں اوباما نے تیقن دیا کہ جاریہ سال کارکردگی کا سال ہوگا۔ اُنھوں نے اپنی خارجہ پالیسی کے اہم پہلوؤں کو اُجاگر کیا اور کہاکہ دنیا کو پیچیدہ خطرے درپیش ہیں۔ امریکی قیادت اور امریکہ کو درپیش خطروں کا انحصار اُس کے اقتدار کے تمام عناصر پر منحصر ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ جو تحدیدات ہم نے عائد کی تھیں اِس کے نتیجہ میں ایران نے اپنی یورانیم افزودگی کے پروگرام کو محدود کردیا ہے اور جس سطح تک یورانیم افزودہ کی جارہی ہے اُسے نیوکلیر ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال نہیں کیا جاسکتا، اِس لئے ایران پر تازہ تحدیدات کا مطلب اُسے سرکشی پر مجبور کرنے کے مترادف ہوگا۔ چنانچہ اگر امریکی کانگریس تازہ تحدیدات کی منظوری دے تو وہ اُسے مسترد کردیں گے۔
افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے اوباما نے کہاکہ جاریہ سال افغانستان میں امریکہ کی طویل ترین جنگ ختم ہوجائے گی اور 2014 ء کے بعد وہ افغانستان میں بہت ہی معمولی تعداد میں امریکی فوج تعینات رکھیں گے۔ اُنھوں نے کہاکہ اگر حکومت افغانستان باہمی صیانتی معاہدہ پر دستخط کردے جو ہم نے پیش کیا ہے تو امریکی فوجیوں کی محدود تعداد 2014 ء کے بعد بھی افغانستان میں تعینات رہے گی۔ جبکہ امریکہ کے حلیف ناٹو کے دیگر ارکان افغان فوج کو تربیت فراہم کریں گے اور اُس کی مدد کریں گے۔ جہاں تک افغانستان سے امریکہ کے تعلقات کا سوال ہے، اِن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اُنھوں نے کہاکہ افغانستان سے زیادہ سے زیادہ امریکی فوجی وطن واپس ہوچکے ہیں۔ افغان فوج اب اپنی صیانت کے لئے خود میدان میں آگئی ہے اور امریکی فوج صرف مددگار کا کردار ادا کررہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے اوباما نے کہاکہ امریکہ ہنوز محفوظ نہیں ہے۔ یمن، صومالیہ، عراق اور مالی میں امریکہ اپنے شراکت داروں کے تعاون سے سرگرم ہے۔