تہران ۔ 18 اپریل (سیاست ڈاٹ کام ) ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایران کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا، لیکن اپنے دفاع کا پورا حق رکھتا ہے۔ صدر روحانی نے اس امر کا اظہار جمعہ کے روز ایک فوجی پریڈ سے خطاب کے دوران کیا ہے۔انہوں نے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاملے پر مستقل معاہدے کیلیے جاری مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ” پڑوسیوں کو علم ہونا چاہیے کہ ایرانی فوج خطے میں استحکام چاہتی ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا” جیسا کہ ہم نے جوہری مذاکرات کے دوران بھی بتا دیا ہے کہ ہم جنگ چاہتے ہیں نہ کسی پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔”اس عسکری تقریب کے دوران ایرانی جنگی طیاروں کی پروازوں کے علاوہ ایرانی میزائلوں کی متحرک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ روحانی کا لہجہ واضح طور پر اپنے پیش رو صدر احمدی نڑاد سے مختلف تھا۔
احمدی نڑاد عام طور پر اسرائیل کو نشانہ بنایا کرتے تھے، اس کے مقابلے میں صدر روحانی نے کہا ” ہم استدلال اور مکالمے پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔”ڈاکٹر روحانی نے کہا ” گزشتہ دو صدیاں گواہ ہیں کہ ایران نے کبھی کسی پر حملہ نہیں کیا ہیبلکہ ہمیں جارحیت کا سامنا رہا ہے۔ واضح رہے پچھلے سال جون میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے صدر روحانی نے خود کو ایک اعتدال پسند کے طور پر پیش کیا انہوں نے کہا کہ ایران ظاہر کرچکا ہے کہ اس کے دنیا میں کسی سے بھی معاندانہ ارادے نہیں ہے۔ بشمول امریکہ جو طویل مدت سے ایران کو دشمن سمجھتا رہا ہے حسن روحانی نے کہا کہ بات چیت کے دوران ہم نے دنیا کے سامنے اعلان کردیا اور دوبارہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم جنگ باز نہیں ہیں ہم صرف منطقی جواز پیش کرتے ہیں،مذاکرات چاہتے ہیں۔
انہوں نے ایران کے سفارتی روابط کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ فوج اور قوم کی تائید اہمیت رکھتی ہے ۔ مسلح افواج کی تائید اور ہمارے دلیر عوام کی تائید سرکاری عہدیداروں کو جو سفارتی محاذ پر مذاکرات کے ذمہ دار ہیں بااختیار بناتی ہے ۔ صدر ایران نے اپنے کٹر حریف اسرائیل کا کوئی تذکرہ نہیں کیا لیکن کہا کہ ایران کسی بھی ملک پر حملہ نہیں کرے گا لیکن اس پر حملے کی صورت میں مزاحمت کی جائے گی۔ حسن روحانی نے اپنے پڑوسی ممالک کو تیقن دیا کہ ایران ان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا چاہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پڑوسی ممالک کو جان لینا چاہئے کہ ہماری فوج امن اور استحکام کی تائید کرتی ہے ۔ یہ تبصرے ان کے پیشرو محمود احمد ی نژاد کے جارحانہ لب و لہجہ کے تبصروں کے برعکس ہیں۔جون میں اپنے منتخب ہونے کے بعد حسن روحانی نے عہد کیا تھا کہ نیوکلیئر تنازعہ کی یکسوئی مغربی ممالک کے ساتھ کرلی جائے گی اور تکلیف دے معاشی تحدیدات کو ختم کردیا جائے گاجو ایران پر اس کے متنازعہ نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے عائد کئے گئے ہیں۔ایران اور چھ عالمی طاقتیں بشمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نے نومبر میں عبوری معاہدہ طئے کیا ہے جس کے تحت ایران کی یورینیم کی افزودگی کی سطحوں میں کمی کی گئی ہے اور اس کے معاوضہ میں بعض تحدیدات میں نرمی پیدا کی گئی ہے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کی قطعی معاہدہ کیلئے بات چیت جاری ہے جس کے نتیجہ میں اسلامی جمہوریہ ایران اپنی نیو کلیئر ہتھیار بنانے کی تمام صلاحیتوں سے دستبردار ہوجائے گا اور اس پر عائد تحدیدات برخواست کردی جائیں گی۔