تہران۔11 مئی ۔(سیاست ڈاٹ کام) ایران نے ایک بار پھر یورپی یونین کو تہران کیساتھ جوہری بحران کے حل کے لیے 60 دن کی مہلت دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر یورپی ملکوں اور جوہری معاہدے پر دستخط کرنیوالے ملکوںنے معاملے کا کوئی ٹھوس حل نہ نکالا تو تہران یورینیم کی افزدوگی دوبارہ شروع کردے گا۔ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق نائب وزیرخارجہ عباس عراقجی نے یورپی یونین کے ممالک کو ایک انتباہی پیغام ارسال کیا ہے جس میں انہوںنے یورپ کو تہران کیساتھ 2015ء کو طے پائے جوہری معاہدے پر پیدا ہونیوالے بحران کو ساٹھ دن کیاندر اندر حل کرنے پر زور دیا ہے۔جمعہ کے روز برطانوی ڈائرکٹر جنرل برائے خارجہ امور رچرڈ مور سے تہران میں ملاقات کے موقع پر عباس عراقجی کا کہنا تھا کہ یورپی یونین ایران کی طرف سے جوہری معاہدے کی بعض شرائط پرعمل درآمد نہ کرنے کے اعلان کو معمولی نہ سمجھے۔ ہم ایک بار پھر یورپی ملکوں اور 2015ء کو ایران کیساتھ جوہری معاہدہ کرنے والی طاقتوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ جوہری تنازعہ کو دو ماہ کے اندر اندر حل کریں۔قبل ازیں ایرانی صدر حسن روحانی نے جوہری معاہدے کی شقوں کو بتدریج معطل کرنے کا الٹی میٹم دے دیا تھا۔تین روز قبل ایران کے صدر حسن روحانی نے ‘جے سے پی او اے’ کی دو شقوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا اور الٹی میٹم دیا کہ اگر 60 دنوں میں یورپی طاقتوں نے اس معاہدے کے مطابق ایران پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کے عملی اقدامات نہ کیے تو ایران مزید شقیں معطل کردے گا۔
ایران کے اس اعلان کے بعد یورپین یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ، اور فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ‘جوہری اسلحہ کے پھیلاؤ کو روکنے والوں کے لیے معاہدہ ایک کلیدی کامیابی ہے جو سب کی سیکیورٹی کے مفاد میں ہے۔یورپی یونین کے ان رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ‘ہم ایران سے پْر زور انداز میں کہتے ہیں کہ معاہدے کے تحت جو کچھ بھی طے پایا ہے اس پر اْسی طرح عملدرآمد جاری رکھے جسں طرح وہ اب تک کرتا رہا ہے اور کشیدگی بڑھانے والے اقدامات لینے سے گریز کرے۔’ایران اور امریکہ کے درمیان اْس وقت سے ایک مرتبہ پھر کشیدگی پیدا ہوگئی ہے جب سے صدر ڈونالڈٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کو رکوانے کے لیے بین الاقوامی معاہدے سے یک طرفہ طور پر علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔اس معاہدے پر 2015ء میں اقوامِ متحدہ سمیت امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے دستخط کیے تھے۔ معاہدے میں طے پایا تھا کہ ایران اپنے جوہری منصوبے کو کم تر درجے تک لے جائے گا اور صرف 3 فیصد یورینیم افزودہ کرسکے گا۔ اس کے عوض ایران پر عائد اقتصادی پاپندیاں ہٹا لی جائیں گی، لیکن گزشتہ برس باوجود اس کے کہ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے ایران کو اس معاہدے کی مکمل پابندی کی سند دی تھی، صدر ٹرمپ نے اس سے یک طرفہ طور پر علیحدہ ہونے کا اعلان کردیا تھا۔