ایران کے خلاف امریکہ کی تحدیدات اور ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے ملکوں کو انتباہ دینے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے بارے میں سوال اُٹھ رہا ہے کہ آیا ، امریکہ عالمی سطح پر نفسیاتی خوف پیدا کررہا ہے ۔ یوروپی یونین نے ایران پر امریکی پابندیوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ایران کے ساتھ تجارت کرنے والی یوروپی کمپنیوں کے حقوق کی دفاع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے ۔ ایران پر امریکی تحدیدات کا منگل سے ہی نفاذ عمل میں آیا ۔ ایران کو امریکی کرنسی اور اہم معاشی شعبوں تک رسائی روکدینے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے ۔ اس سے پہلے کئے گئے اقدامات سے ہی کئی نقصانات ہوئے ہیں ۔ ٹرمپ کے جارحانہ تیور کسی بھی علاقہ کے لیے ٹھیک نہیں سمجھے جارہے ہیں ۔ ایران کو زچ کرتے ہوئے اس سے مذاکرات کا احیاء کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جانا ایران کے لیے ناقابل قبول ہوگا ۔ 2015 کے تاریخی نیوکلیر معاہدہ کو ختم کرنے اور پھر دوبارہ بات چیت کرنے کے لیے امریکہ دباؤ ڈال رہا ہے تو یہ سراسر اپنی بالادستی منوانے کی کوشش ہے ۔ ایک طرف تحدیدات نافذ کر کے ایران کو معاشی طور پر پریشان کرنا اور دوسری طرف 2015 نیوکلیر معاہدہ منسوخ کر کے اس موضوع پر دوبارہ بات چیت کی پیشکش ناقابل فہم ہے ۔ ایران کے اندر حالیہ مہینوں میں افراط زر میں اضافہ ہوا ہے ۔ حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کے خلاف عوام کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے ۔ اس لیے ایرانی قیادت کو اندرون ملک صورتحال سے موثر طریقہ پر نمٹنے کے علاوہ امریکی چالاکیوں سے چوکس رہنا ہوگا ۔ معاشی سطح پر ایران کو پریشان کرتے ہوئے یہ سازش بھی کی جاسکتی ہے کہ ایرانی قیادت زہر کا گھونٹ پی کر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہوجائے ۔ گذشتہ پیر کو صدر امریکہ ٹرمپ کے اس بیان میں پوشیدہ بات سے یہ اندازہ کرلینے میں دیر نہیں ہوگی کہ وہ تحدیدات کے ذریعہ ایرانی حکومت کو اس کے ہی عوام کی ناراضگیوں کا شکار ہو کر مذاکرات کے لیے مجبور ہونا پڑے گا ۔ صدر ایران نے ثابت روی کے ساتھ یہ واضح کردیا کہ ایران ہرگز مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہوگا جب کہ اس پر زبردستی تحدیدات نافذ کردئیے گئے ہیں ۔ ان کا یہ بیان بھی درست ہے کہ امریکہ ایک ایسا دشمن ہے جو ایک طرف خنجر گھونپتا ہے اور دوسری طرف مذاکرات کی خواہش ظاہر کرتا ہے ۔ اگر بات چیت کرنا مقصد ہے تو اسے سب سے پہلے اس خنجر کو نکالنا ہوگا جو تحدیدات کی شکل میں گھونپا گیا ہے ۔ امریکی پالیسیاں ایرانی عوام کے لیے اگر نفسیاتی جنگ چھڑنے کے مترادف ہیں تو یہ تحدیدات ایران کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے ۔ ایران کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی کی عالمی سطح پر مخالفت ہورہی ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ سفارتی طور پر یکا و تنہا ہورہا ہے ۔ تحدیدات کا ہتھیار ایک ایسے وقت چلایا گیا ہے جب ایران میں معاشی امور کو لے کر حکومت پر تنقیدیں ہورہی ہیں ۔ اب مزید مسائل پیدا ہوں گے تو ایرانی عوام میں اپنی حکومت کے خلاف ناراضگیاں بڑھنے لگیں گی ۔ لہذا تحدیدات کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے ایرانی حکومت کو متبادل اقدامات کرنے ہوں گے ۔ امریکہ پر سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے ایران کو اپنے دوست ملکوں کی مدد لینی ہوگی ۔ خاص کر آئندہ ماہ جب نیویارک میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوگا ۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ اور صدر حسن روحانی کے درمیان ملاقات کا امکان پیدا ہوجائے تو باہمی تنازعات کو دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے ۔ جیسا کہ صدر ایران نے اپنے ٹی وی خطاب میں کہا کہ ایران ہمیشہ سفارتکاری کا حامی رہا ہے تو سفارتی سطح پر ہی امریکہ کے ساتھ تنازعہ کی یکسوئی کی جانب پیشرفت کرنی چاہئے ۔ صدر امریکہ ٹرمپ کو بھی یہ منطق سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پابندیاں لگا کر مذاکرات کے لیے زور دینا سمجھ سے بالاتر بات ہوگی ۔شمالی کوریا کے ساتھ نرمی اختیار کرنے والا امریکہ ایران کو آنکھیں دکھا رہا ہے تو اس سے خطہ میں جنگ چھیڑ جانے کا اندیشہ پیدا ہوجائے گا ۔ ایک جانب خلیج فارس میں ایران کے بحری بیڑہ نے مشقیں بھی شروع کی ہیں ، دوسری طرف امریکہ نے قطر اور ڈیگوگریسا میں اپنی فضائی پٹی پر سرگرمیاں تیز کردی ہیں ۔ اس صورتحال کو اشتعال انگیز بننے سے گریز کرنا ہر دو ممالک کے لیے بہتر ہوگا ۔