ویانا ۔ 2 ۔ جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے قطعی مذاکرات کیلئے مصالحت کار آج ویانا پہنچ گئے ہیں ، جہاں ووہ 20 جولائی کی قطعی معاہدے سے قبل تاریخی معاہدے کو قطعیت دیں گے ۔ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے پانچ رکن کے علاوہ جرمنی یہ چاہتا ہے کہ حکومت ایران رہے، نیوکلیئر پروگرام میں تخفیف کرے ، تاکہ عرصہ دراز سے عالمی برادری میں موجود اس تشویش کو کہ ایران تہران ایٹمی بم بناسکتا ہے، کو دور کیا جاسکے۔ دوسری طرف ایران اقوام متحدہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ تحدیدات کے خاتمہ کا متمنی ہے۔ اس لئے وہ مسلسل اس بات پر زور دے رہا ہے کہ ان کا نیوکلیئر پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے ۔ واضح رہے کہ چھ فریقی مذاکرات کا کل سے یہاں آغاز ہورہا ہے
جو کہ قطعی ہوگا اور اس کیلئے 20 جولائی کی قطعی مہلت مقرر کی گئی ہے ۔ توقع ہے کہ 20 جولائی تک اس ح والے سے ایک تاریخی معاہدہ قطعیت پاسکتا ہے ، جبکہ نومبر کے اواخر تک عبوری معاہدہ طئے پاسکتا ہے ۔ البتہ یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس معاملے میں مزید 6 ماہ کی توسیع کی جاسکتی ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ میں تحریر کئے گئے اپنے آرٹیکل میں امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے کہا ہے کہ ’’یہ مذاکرات ایران لیڈرس کی پسند پر انحصار کرتا ہے‘‘ کہ آیا وہ کیا چاہتے ہیں؟ ۔ بقول ان کے وہ ان مطلوبہ اور ضروری اقدامات پر عمل کرنے پر متفق ہوسکتے ہیں جس سے عالمی برادری کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ ان کے ملک کا نیوکلیئر پروگرام پرامن ہوگا اور اسے فوجی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا ۔ یا پھر وہ اس تاریخی اور سنہری موقع سے محروم ہوسکتے ہیں جس سے ایران کی معاشی اور سفارتی تنہائی کا خاتمہ ہوسکتا ہے
اور وہ اپنے ملک کے باشندوں کی طرز زندگی میں خوشحالی لاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی مہینوں کے تبادلہ خیال اور مذاکرات کے بعد ایران کیا چاہتاہے وہ ابھی تک نہیں جان پائے ۔ دوسری طرف ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک فرانسیسی روزنامہ میں لکھا ہے کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے 5+1 طاقتوں میں سے بعض خود فریبی کا شکار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مغربی خدشات کے برعکس ، ایران اگر چاہتا تو اب تک ایٹمی بم بناچکا ہوتا کیونکہ اس کے پاس چند مہینے نہیں بلکہ کئی سال تھے، مگر ایران ایسا نہیں چاہتا۔ مسٹر جواد ظریف نے کہا کہ میں ان ملکوں سے اپیل کرتا ہوں جو مکر و فریب کا شکار ہیں کہ وہ مذاکرات کے اس عمل کو پٹری سے اتارنے کی کوشش نہ کریں جس سے کئی برسوں سے جاری اس بحران کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔