ایران اور خلیجی ممالک

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
ایران اور خلیجی ممالک
امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہونے کے بعد اس خطہ کی صورتحال میں تیزی سے رد و بدل ہورہا ہے ۔ ایران کی فوجی پریڈ کے موقع پر پاسداران انقلاب پر حملے اور 29 کی ہلاکت کے بعد ایرانی قیادت کو یہ الزامات عائد کرنے کا موقع ملا کہ اس حملے کے پیچھے امریکی سرپرستی والے خلیجی ممالک ذمہ دار ہیں ۔ بندوق برداروں نے سالانہ ایرانی فوجی پریڈ پر حملہ کیا جس کی ذمہ داری دولت اسلامیہ گروپ نے قبول کرلی ہے ۔ اس کے باوجود صدر ایران نے اس حملے کے لیے اپنی شک کی سوئی خلیجی ممالک کی جانب کردی ہے ۔ ایران میں جب کبھی حملے ہوتے ہیں تو عالمی سطح پر اس کا ردعمل بھی خاص ہوتا ہے ۔ روحانی عظیم رہنما خامنہ ای نے بھی پاسداران انقلاب پر ہونے والے حملے کو ایران میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش بھی قرار دیا گیا ۔ ایران کی فوجی و دفاعی طاقت کا ایک اپنا الگ مقام اور درجہ ہے ۔ پاسداران انقلاب کو ایران کا طاقتور عسکری دستہ قرار دیا جاتا ہے ۔ گذشتہ روز ایران کے صوبے قزستان کے شہر آہواز میں جو کچھ ہوا اس کی شدید مذمت کی جاتی ہے جہاں تک خلیجی ممالک پر صدر ایران اور عظیم رہنما کی تنقیدیں اور الزامات کا سوال ہے یہ الزامات نئے نہیں ہیں ۔ ماضی میں بھی جب کبھی ایران کو ایسے حملوں کا سامنا ہوا ہے اس نے راست طور پر خلیجی ملکوں کو ہی ذمہ دار ٹہرایا ہے ۔ جون 2017 میں بھی ہوئے ایک حملے کے لیے امریکہ زیر سرپرستی والے خلیجی ممالک کو ذمہ دار ٹہرایا تھا ۔ پاسداران انقلاب ایران کا ایک عسکری طاقتور دستہ ہے ۔ دہشت گرد حملے کسی بھی مقام پر ہوں ان کی ایک پرامن اور مہذب دنیا میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ایران کو پہلے سے زیادہ محتاط ہونے اور چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کارروائی کسی اور کی ہوتی ہے اور الزامات کسی اور کے سر لگائے جاتے ہیں تو اس سے کشیدگی میں اضافہ ہی ہوگا ۔ ایران کو نہ صرف دہشت گرد حملوں کا سامنا ہے بلکہ حالیہ وقتوں میں سائبر انفراسٹرکچر پر بھی بڑے حملے ہوئے تھے ۔ ایران ۔ امریکہ کے درمیان کشیدگی کی انتہا کو پہونچنے سے پہلے سفارتی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ دونوں جانب بیان بازی اور ایک دوسرے کو دھمکی دینے کے نتائج نازک ہوں گے ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات نے کشیدگی کو ہوا دی تھی اب ان کے شخصی وکیل اورے گیولانی نے بھی ایران پر امریکی تحدیدات کو سخت کرنے کا انتباہ دیا ۔ جب کسی ملک پر معاشی دباؤ ڈالا جاتا ہے تو وہ ایک کامیاب انقلاب کی جانب پیشرفت کرتا ہے ۔ ایران کے اندر انقلاب آتے رہے ہیں ۔ اس ملک کو معاشی تحدیدات کے ذریعہ ہرگز بے بس نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے ایران کی طاقت کو للکارنے کی کوشش کسی کے حق میں بھی سود مند ثابت نہیں ہوگی ۔ صدر امریکہ ایران کی معیشت کو کمزور کرنے کی فراق میں ہے ۔ نیوکلیر ہتھیاروں کو ترک کرنے کے لیے اس پر جتنا دباؤ ڈالا جائے گا ایران اتنا ہی مضبوط ہوتا دکھائی دے گا ۔ لہذا عالمی سطح پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنایا جائے ۔ ایران کی معاشی طاقت کو نظر انداز کرنا اور دفاعی قوت کے بارے میں غلط فہمی پیدا کرلینا کسی بھی ملک کے لیے ٹھیک نہیں اور خود ایران کو زیادہ مدت تک عالمی سطح پر کسی ایک طاقتور ملک کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے ۔ بلا شبہ ایران کی دفاعی طاقت اس کا ذاتی حق ہے ۔ اس نے امریکہ کو دکھانے کے لیے حال ہی میں فوجی مشقیں بھی کی تھیں ۔ نومبر میں امریکہ کی تازہ تحدیدات کے بعد خلیج فارس میں تیل کے جہاز کو تباہ کرنے کے اپنا فوجی مظاہرہ کیا تھا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایران کی قیادت ان تحدیدات کی وجہ سے پڑنے والی معاشی ضرب سے اپنے عوام کو محفوظ رکھنے کیا متبادل اقدامات کرے گی ۔ صدر حسن روحانی نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ صدر امریکہ ٹرمپ کا حشر بھی عراق کے حکمران صدر صدام حسین کی طرح ہوگا لیکن یہ عملی طور پر کس حد تک درست ثابت ہوسکتا ہے کیا اس طرح کے بیانات کے سامنے آنے کے بعد دنیا والوں کو یہ اندیشہ لاحق ہوگا کہ تیسری عالمی جنگ چھڑے گی ۔ کیا یہ دنیا عالمی امن کے لیے خطرہ بننے والی کارروائیوں کو چپ چاپ دیکھتے رہے گی ۔۔