ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر جنیوا میں بڑی طاقتوں کا مثبت اجلاس

مذاکرات ثمر آور لیکن اہم پیشرفت کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ، ایران کا ردعمل
جنیوا۔ 23 فروری (سیاست ڈاٹ کام) ایران کے ساتھ نیوکلیئر سمجھوتہ میں حائل بڑی رکاوٹوں کو دُور کرنے کیلئے دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں اور روس پر مبنی گروپ P5+1 کا ایک اجلاس آج یہاں مثبت نوٹ کے ساتھ اختتام کو پہونچا۔ اس گروپ میں امریکی، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس شامل ہیں جن کا اجلاس گزشتہ روز یہاں یوروپی یونین کے دفتر میں منعقد ہوا جس میں ایران کے نائب وزیر خارجہ برائے قانونی و بین الاقوامی اُمور سید عباس عراقچی نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد عراقچی نے کہا کہ ’’یہ ثمرآور اجلاس تھا لیکن ہم ہنوز کسی پیشرفت کا دعویٰ نہیں کرسکتے، کیونکہ ایسا کہنا قبل از وقت ہوگا‘‘۔ امریکہ کی طرف سے اس کے نائب معتمد خارجہ برائے سیال اُمور ونڈی شرمن نے شرکت کی۔ اس دوران ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اور ایرانی ایٹمی توانائی کے ڈائریکٹر علی اکبر صالحی کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور وزیر توانائی ارنسٹ مونیز کی جنیوا کے دوسرے مقام پر بات چیت جاری رہی۔ ایران کے صدر حسن روحانی کے برادر علی اکبر صالحی اور قریبی مددگار حسن فریدون کی امریکی وزیر توانائی ارنسٹ مونیز سے بات چیت یہ اشارہ کرتی ہے کہ ایرانی نیوکلیئر معاملت ایک اہم مرحلہ میں پہونچ گئی ہے۔ امریکی وزیر توانائی ارنسٹ مونیز اور ایرانی رہنما علی اکبر صالحی کی پہلی ملاقات ہے۔ ان دونوں ذمہ داروں نے گزشتہ روز اس مسئلہ پر تقریباً پانچ گھنٹوں تک بات چیت کی تھی تاکہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر سمجھوتہ کی تکمیل میں حائل بڑی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔ ایرانی نیوکلیئر پلانٹ کیلئے یورینیم کی افزودگی اور اس ملک کیخلاف عائد پابندیوں کی برخاستگی کی رفتار پر شاطرانہ مذاکرات ہورہے ہیں اور امریکی چاہتا ہے کہ تحدیدات جلد سے جلد برخاست کئے جائیں۔ دنیا کے چھ طاقتور ممالک بھی چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر گزشتہ ایک دہائی سے جاری تعطل ختم کرتے ہوئے اس کے عوض ایران کے خلاف عائد تحدیدات میں نرمی پیدا کی جائے، تاہم ایران اس دعویٰ پر مسلسل اصرار کررہا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام خالصتاً پرامن مقاصد پر مبنی ہے۔