ایرانی خواتین کو غیرملکی افراد ورغلا رہے ہیں : چیف پراسیکیوٹر

l حجاب کیخلاف احتجاج میں شدت، 29 خواتین گرفتار
l ایک خاتون نے 80,000 یوروز کے عوض اپنی
ضمانت منظور کروائی
l حجاب پر پسندیدگی کا اظہار لیکن لازمی قرار دینے کی مخالفت

تہران ۔ 2 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) ایران میں احتجاج کرنے کی باری شاید اب خواتین کی ہے کیونکہ 1979ء میں جس وقت ملک میں اسلامی انقلاب آیا تھا، اس وقت سے ہی خواتین کو عام مقامات پر (اپنے گھر سے نکلنے کے بعد) حجاب کا استعمال کرنے کا لزوم تھا، جو اب بھی ہے لیکن حالیہ دنوں میں شاید سعودی عرب میں کئے جانے والے ’’اصلاحات‘‘ کو دیکھ کر ایرانی خواتین کے منہ میں بھی پانی آ گیا ہے۔ جی نہیں! سعودی عرب میں خواتین کے حجاب پہننے پر کوئی امتناع عائد نہیں کیا گیا ہے بلکہ اب انہیں اپنے حجاب میں رہتے ہوئے ایسی آزادی دی گئی ہے جسکا اس سے قبل دنیا کے کسی بھی مسلمان نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی، انہیں مختلف اسپورٹس سے لطف اندوز ہونے کیلئے اسٹیڈیمس آنے کی اجازت دی گئی اور اب تو سعودی عرب میں سنیما ہالس کھولے جانے کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔ یہ سب وہ ’’اصلاحات‘‘ ہیں جنہیں سعودی عرب ترقی پسندی سے تعبیر کررہا ہے جبکہ ناقدین اسے مغرب کی سازش تصور کررہے ہیں تاکہ سعودی عرب جیسے مقدس ملک کو بھی ناپاک کردیا جائے۔ بہرحال ایرانی خواتین بھی اب شاید اسکارف (حجاب) پہننا نہیں چاہتیں اور حالیہ دنوں میں جب اس کیخلاف احتجاج میں شدت پیدا ہوئی تو 29 خواتین کو گرفتار کرلیا گیا۔ فارس، الفا اور تسنیم خبر رساں ایجنسیوں نے دریں اثناء زائد تفصیلات بتائے بغیر صرف اتنا بتایا کہ جن خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے انہیں ملک کے پراسیکیوٹر کے دفتر سے رجوع کیا گیا ہے۔ اس موقع پر چیف پراسیکیوٹر محمد جعفر منتظری نے چہارشنبہ کو حجاب کیخلاف احتجاج میں پیدا ہوئی شدت کو بچکانہ حرکت قرار دیتے ہوئے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور ریمارک کیا کہ یہ سب کچھ بیرونی افراد کی کارستانی ہے جو ایرانی خواتین کو ورغلا رہے ہیں۔ ان سے ایک حالیہ واقعہ کے بارے میں استفسار کیا گیا تھا جہاں ایک خاتون کو ایک مصروف ترین سڑک پر واقع ایک کھمبے سے متصلہ باکس پر بغیر حجاب کے ٹھرا ہوا پایا گیا تھا جبکہ اس نوعیت کے امیجس کو جن میں تقریباً گیارہ خواتین کو حجاب کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے سوشیل میڈیا پر بھی دکھایا گیا۔ یہاں یہ بات حیرت زدہ کرنے والی ہیکہ جن خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے ایک نے ایک لاکھ ڈالرس (80,000 یوروز) کے عوض اپنی ضمانت منظور کروائی۔ منتظری نے کہا کہ جو لوگ حجاب کے قانون کی دھجیاں اڑانا چاہتے ہیں انہیں مقامی شہریوں نے نہیں بلکہ بیرون ممالک سے آنے والوں نے ورغلایا ورنہ حجاب تو صرف سر کو ڈھانپنے والا ایک ہلکا پھلکا کپڑا ہے اور اسکے علاوہ سیدھے سادھے لباس زیب تن کرنا کیا کوئی مشکل کام ہے جس سے خواتین اپنی زینت کی نمائش نہ کرسکیں لیکن افسوس کی بات ہیکہ ایسی ایرانی خواتین جو مذہبی طور پر بھی قدامت پسند تصور کی جاتی تھیں، وہ بھی اب حجاب کیخلاف یہ دلائل پیش کررہی ہیں کہ مذہبی قوانین کو ماننے یا نہ ماننے کو عوام کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ٹوئیٹر پر بھی جو تصاویر اپ لوڈ کی گئی ہیں ان میں خواتین کو یوں تو سیاہ چادر میں ملبوس بتایا گیا ہے جن میں سے کچھ نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈس تھام رکھے ہیں جن پر تحریر ہیکہ ’’آئی لو حجاب بٹ آئی ایم اگینسٹ کمپلسری حجاب‘‘ (مجھے حجاب پسند ہے لیکن میں اسے لازمی قرار دینے کے خلاف ہوں) دریں اثناء ایک خاتون سماجی جہدکار آذر منصوری نے جو اصلاح پسند یونین آف اسلامک ایرانین پیوپل پارٹی کی رکن ہیں، نے کہا کہ خواتین کے لباس پر کنٹرول کرنے کی کوششیں برسوں سے ناکام ہوتی آرہی ہیں۔ خواتین بال ڈھانپنے، لمبے جوتے اور لیگنگس نہ پہننے کیخلاف عرصہ دراز سے مخالفت کررہی ہے لیکن ان واقعات میں 2013ء میں حسن روحانی کے صدر بننے کے بعد نمایاں کمی بھی دیکھی گئی۔