ایبولا سے ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ، عالمی ادارۂ صحت

جنیوا۔ 4 ستمبر ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے چہارشنبہ کے روز بتایا گیا ہے کہ ایبولا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور گزشتہ ایک ہفتے میں اس بیماری کی وجہ سے کم از کم چار سو افراد لقمہ ٔ اجل بن گئے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ اس متعدی بیماری کی روک تھام اور اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اگلے چھ سے نو ماہ کے دوران کم از کم چھ ملین ڈالر درکار ہوں گے۔ڈبلیو ایچ او کے بیان کے مطابق، ’ایبولا کی بیماری بہت بڑی، بہت خطرناک اور بہت پیچیدہ ہے۔ ایسے ایبولا وائرس کی وبا ہم نے پچھلے چالیس سال کی تاریخ میں نہیں دیکھی۔‘عالمی ادارۂ صحت کی ڈائریکٹر جنرل مارگریٹ چن نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کے روک تھام کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

اس وبا کے شکار افراد میں طبی شعبے سے وابستہ افراد کی بھی بہتات ہے۔ 51 سالہ امریکی فریشن رِک ساکرا، اس وائرس کے شکار ہونے والے ایک اور امریکی شہری ہیں۔ وہ اس وقت لائبیریا کے ایک ایبولا سینٹر میں زیرعلاج ہیں۔سرالیون میں ایبولا کا شکار ہونے والی ایک برطانوی نرس لندن میں ایک اسپتال میں زیرعلاج رہیں، تاہم اب انہیں علاج کے بعد اسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس بیماری کے خلاف موثر اقدامات کی فوری ضرورت ہیڈبلیو ایچ او کے مطابق اگر بین الاقوامی برادری مل کر کام کرے اور وسائل مہیا کیے جائیں تو اس وائرس پر قابو پانا ممکن ہے۔ڈبلیو ایچ او کے ایک اعلیٰ کوآرڈینیٹر ڈیوڈ نبارو کے مطابق، ’’مل کر کام کرنے سے زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ ہم اس سلسلے میں ایک دن ضائع کرنے کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے۔‘ڈبلیو ایچ او کے ایک اور اعلیٰ عہدیدار نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت میں کہاکہ سرمائے کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقے میں وسائل اور طبی عملے کی بھی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں اس وائرس سے متاثرہ ہر 80 مریضوں کے لیے دو سے ڈھائی سو ہیلتھ ورکرز کی ضرورت ہے۔اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں گنی، لائیبریا اور سرا لیون شامل ہیں جب کہ اب یہ بیماری دیگر افریقی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے۔ ڈی پی اے کے مطابق اب تک 35 سو افراد میں یہ وائرس رپورٹ کیا جا چکا ہے۔ ادھر ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں بھی اس وائرس سے 31 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، تاہم کہا گیا ہے کہ وہاں پھیلنے والے ایبولا وائرس کا مغربی افریقہ میں ہلاکتوں کی سبب بننے والی بیماری سے تعلق نہیں۔