جکارتہ۔ 3 جنوری۔( سیاست ڈاٹ کام) ایئر ایشیا کی پرواز کیو زیڈ 8510 کے حادثے کے پانچ روز بعد بحیرہ جاوا سے مزید نعشیں نکالی گئیں ہیں۔ اس طرح انڈونیشیائی حکام کے مطابق اب تک ملنے والی لاشوں کی تعداد 30 ہو گئی ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کے ملبے کی تلاش اب خاص آلات آنے کے بعد پانی کے اندر شروع کر دی گئی ہے۔ فرانس کی حادثے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم طیارے اور اس کا بلیک باکس ریکارڈر ڈھونڈنے کیلئے حساس آلات استعمال کر رہی ہے۔ اتوار کے روز انڈونیشیا کے شہر سورابایا سے سنگاپور جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئی تھی اور خیال کیا جارہا ہے کہ اس میں سوار تمام 162 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حادثے کے نزدیکی شہر پنگ کلاں بن شہر میں حکام کے مطابق جمعہ کو مزید نعشیں برآمد کی گئیں۔ ابھی تک صرف چار افراد کی شناخت ہو سکی ہے۔ جہاز کی تلاشی کی کاروائی میں متعدد ملکوں کے ہوائی اور بحری جہاز حصہ لے رہے ہیں۔
ایک خاتون کی حیاتی لطفیہ حامد کے نام سے شناخت کی گئی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ جہاز بحیر ہ جاوا کے اتھلے پانیوں میں ہے۔ جہاز کے ملبے کے کئی حصے مل گئے ہیں، جن میں پروں کے حصے بھی شامل ہیں۔ لیکن پانچ دنوں پر محیط تلاش کی بڑی کارروائی کے باوجود ابھی تک جہاز کا فیوزیلاڑ (جہاز کا مرکزی حصہ جہاں مسافر بیٹھتے ہیں) نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ حکام کا اندازہ ہے کہ اکثر مسافروں کی نعشیں اس کے اندر ہوں گی جن کو اپنی سیٹ بیلٹ کھولنے کا تک موقع نہیں مل سکا۔ جہاز کے فیوزیلاڑ اور فلائٹ ریکارڈر کی تلاش سے اس معمے کے حل میں مدد ملے گی کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ جہاز اس طرح اچانک سمندر میں جا گرا۔ ادھر بعض تفتیش کاروں نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر جب پائلٹ نے طوفان سے بچنے کیلئے تیزی سے بلندی پر جانے کی کوشش کی تو جہاز کا انجن بند ہو گیا اور وہ گرنے لگا۔ حادثے سے قبل ایئر ایشیا کا سیفٹی ریکارڈ بہت عمدہ تھا اور اب تک اس کے جہازوں کو کوئی مہلک حادثہ پیش نہیں آیا تھا۔