اس قدر خاموشی ہے چاروں طرف
ذہن سوچے تو شور ہوتا ہے
اہم مسائل ‘وزیر اعظم کی خاموشی
وزیر اعظم نریندر مودی کو ویسے تو رائی کا پہاڑ بنانے کا فن آتا ہے اور ان کے اس فن کی اپوزیشن قائدین اور جماعتوں کی جانب سے طنزیہ انداز میں ستائش و سراہنا بھی کی گئی ہے ۔ معمولی بات کو توڑ مرو ڑ کر اپنے انداز میںپیش کرنا اور اپنی ہی مرضی کا راگ الاپنا وزیر اعظم کا طریقہ رہا ہے ۔ اپنے انداز میں اپنے الفاظ میں کسی بھی مسئلہ کو پیش کرنے کا ڈھنگ انہوں نے خوب اختیار کیا تھا جب لوک سبھا انتخابات کی مہم زوروں پر تھی ۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی کو بھی چپ لگ گئی ہے ۔ وہ بھی شائد کسی کے اشاروں پر کام کرنے کے پابند ہیں۔ وہ اہم ترین مسائل اور فوری توجہ کے امور پر بھی منظوری اور اجازت کے بغیر زبان نہیں کھول سکتے ۔ خاص طور پر جو مسائل بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ان مسائل پر تو نریندر مودی ایک لامتناہی خاموشی اختیار کرجاتے ہیں۔ ان کی مسلسل خاموشی یہ احساس دلاتی ہے کہ جس طرح سے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ مسلسل خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دیا کرتے تھے اسی طرح نریندر مودی بھی خاموشی میں ہی اپنی بھلائی محسوس کرتے ہیں ۔ یو پی اے کے دور حکومت میں بی جے پی کی جانب سے ہی مسلسل تنقید کی جاتی رہی کہ منموہن سنگھ ریموٹ کنٹرول کے تحت ہیں اور انہیں کوئی بھی بیان دینے سے پہلے اور لب کشائی سے پہلے سونیا گاندھی کی منظوری حاصل کرنی پڑتی ہے ۔ اب خود نریندر مودی اسی صورتحال کا شکار ہیں اور اہم ترین مسائل اور توجہ کے طالب امور پر بھی وہ ایسی خاموشی اختیار کر رہے ہیں جس سے خود ان کے قریبی حلقوں میں بھی بے چینی پیدا ہونے لگی ہے۔ ملک میں تین خواتین مسائل میں گھری نظر آ رہی ہیں۔ وزیر خارجہ سشما سوراج ‘ وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی اور چیف منسٹر وسندھرا راجے سندھیا ان دنوں پریشانیوں کا شکار ہیں۔ ان پر غیر قانونی کاموں کی حمایت کا الزام ہے ۔ سمرتی ایرانی پر اپنی گریجویشن کی ڈگری کے تعلق سے غلط بیانی کا الزام ہے ۔ سشما سوراج اور وسندھرا راجے پر للت مودی کی مدد کرنے کا الزام ہے جن پر ہندوستان میں مقدمات درج ہیں اور وہ ان سے بچنے خود معلنہ جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔
للت مود ی معاملہ میں سشما سوراج نے اپنے عہدہ کا بیجا استعمال کیا تھا اور اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستان میں مطلوب شخص کی مدد کی تھی ۔ اب یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ للت مودی کو برطانیہ میں قیام کی اجازت دینے سے متعلق درخواست پر وسندھرا راجے سندھیا نے دستخط کئے تھے ۔ کہا جارہا ہے کہ وسندھرا راجے نے خود بی جے پی کے اعلی قائدین کے سامنے ایسے دستخط کرنے کا اعتراف کرلیا ہے اور اب کانگریس پارٹی کی جانب سے ان کی دستخط والے دستاویز کی نقولات بھی میڈیا میں جاری کردی گئی ہیں۔ اب اس میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ للت مودی کو بی جے پی کے کئی قائدین کی مدد حاصل رہی ہے ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ للت مودی نے کس طرح سے آئی پی ایل میں سٹہ بازی کو فروغ دیا تھا اور وہ خود بھی رقمی خرد برد میں ملوث رہے تھے ۔ ہندوستان میں انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا ۔ وہ ایک مرتبہ ای ڈی کی پوچھ تاچھ میں بھی آئے تاہم بعد میں وہ تحقیقات سے بچنے لندن فرار ہوگئے اور اب تک وہیں مقیم ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تمام حقائق سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ وزیر اعظم کی حیثیت میں نریندر مودی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی کابینہ کے ارکان کے کاموں پر قوم کو جواب دیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اس ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں ۔ وہ نہ اپنے موقف کی وضاحت کرنے پر رضامند نظر آتے ہیں اور نہ ہی قوم کو یہ تیقن دے رہے ہیں کہ کسی بھی غلط کرنے والوںکو بخشا نہیں جائیگا ۔
وزیر اعظم کے قریبی گوشے اور حواری یہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی وزیر اعظم کا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ یہ بچکانہ عذر ہے ۔ اب تک جو تفصیلات منظر عام پر آگئی ہیں اور خود وسندھرا راجے نے دستخط کرنے کا اعتراف کرلیا ہے ‘ دستخط پر مبنی دستاویز بھی جاری کردیا گیا ہے اس کے باوجود کسی طرح کا بیان دینے سے وزیر اعظم کا گریز یا تو ان کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے یا پھر یہ احساس دلاتا ہے کہ انہیں اپنی کابینہ کے ارکان پر کسی طرح کا کنٹرول نہیں ہے ۔ قوم راست وزرا سے ہی جواب طلب کرلے اور وہ جواب دینے کے موقف میں نہیںہیں۔ مرکزی وزرا کی جانب سے ملک میں مطلوب ملزم کی مدد کرنا اور انہیں بیرونی ممالک میں سہولیات فراہم کروانا ایسا غیر اہم کام نہیں ہے جس پر وزیر اعظم بیان دینے میں عار محسوس کریں۔ ان کی خاموشی سے یہ سوال پیدا ہو رہے ہیں کہ آیا وہ بھی کسی ریموٹ کنٹرول کے تابع ہیں ؟ ۔