فہرست میں متنازعہ جائیدادیں بھی شامل ، حکومت کا اقدام باعث حیرت ، عوامی نمائندوں کو توجہ دینے کی ضرورت
حیدرآباد۔/27جنوری، ( سیاست نیوز) حکومت نے 11اہم اوقافی اراضیات کو 30سالہ مدت کیلئے لیز پر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم ان میں سے بعض اراضیات قانونی اور دیگر تنازعات میں گھری ہوئی ہیں جس کے باعث لیز پر دیئے جانے کا کام وقف بورڈ کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ حکومت نے نہ صرف اراضیات کی نشاندہی کی بلکہ وقف بورڈ کو ہدایت دی کہ وہ لیز کا عمل تیزی سے شروع کرے اور گلوبل ٹنڈرس طلب کئے جائیں۔ عام طور پر کوئی بھی خانگی ادارہ ایسی اراضیات اور اداروں کو لیز پر حاصل کرنے میں دلچسپی دکھاتا ہے جو تنازعات سے پاک ہوں۔ خاص طور پر اوقاف سے متعلق اراضیات میں کہیں نہ کہیں تنازعات ضرور ہوتے ہیں اس کے باوجود حکومت نے 11 اراضیات کی فہرست میں ایسی متنازعہ جائیدادوں کو بھی شامل کردیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں مسجد عالمگیر ہائی ٹیکس کی 1.20 ایکر اراضی اور معین منزل عابڈز کی 2000 مربع گز اراضی کے مقدمات عدالت میں زیر دوران ہے جب تک ان کی یکسوئی نہیں ہوجاتی اس وقت تک کوئی بھی خانگی کمپنی لیز پر حاصل کرنے آگے نہیں آئے گی اور نہ ہی وقف بورڈ انہیں غیر متنازعہ اراضیات کے طور پر پیش کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ آوٹر رنگ روڈ جنکشن کی ایک ایکر اراضی پر کئی ناجائز قبضے ہیں جن کی برخاستگی وقف بورڈ کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ فہرست میں درگاہ حضرت برہنہ شاہ ؒ کے تحت 6000 مربع گز اراضی کو لیز پر دینے کیلئے شامل کیا گیا لیکن احکامات کی اجرائی کے بعد یہ معاملہ مقامی سیاسی جماعت کے سبب تعطل کا شکار ہوچکا ہے۔ حکومت 6000 مربع گز اراضی کو تجارتی سرگرمیوں کیلئے لیز پر دینے کا منصوبہ رکھتی ہے تاہم مقامی جماعت کے فلور لیڈر نے یہ اراضی اسکول کی تعمیر کیلئے الاٹ کرنے کا مطالبہ کیاہے جسے چیف منسٹر نے قبول کرلیا۔ ان حالات میں حکومت کو نئی فہرست کے ساتھ دوبارہ احکامات جاری کرنے ہوں گے۔ اوقافی جائیدادوں کو لیز پر دینے کا مقصد وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ کرنا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان اراضیات کو تنازعات سے پاک کرنے کیلئے وقف بورڈ کو کافی وقت درکار ہوگا۔ ایسے میں حکومت کا یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ حکومت نے حج ہاوز نامپلی سے متصل دونوں جانب کی اراضی کو لیز پر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک طرف 3700 مربع گز پر زیر تعمیر کامپلکس ہے جبکہ دوسری جانب 3500مربع گز کھلی اراضی ہے۔ زیر تعمیر کامپلکس کو لیز پر دینے کیلئے سابق میں بھی کوششیں کی گئی تھیں لیکن جس پلان کے ساتھ عمارت کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تھا وہ خانگی کمپنیوں کو پسند نہیں ہے۔ لہذا کسی ایک بڑی کمپنی کی جانب سے اسے حاصل کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ 3500 مربع گز کھلی اراضی کے سلسلہ میں سابق میں تجویز تھی کہ نئے حج ہاوز کی تعمیر اس اراضی پر کی جائے۔ کرن کمار ریڈی حکومت نے نئے حج ہاوز کیلئے 10کروڑ روپئے جاری کئے تھے۔ پہاڑی شریف میں نئے حج ہاوز کی تعمیر کی تجویز سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے حج ہاوز سے متصل کھلی اراضی کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اب جبکہ شہر کے کسی مرکزی مقام پر نئے حج ہاوزکی سخت ضرورت ہے، ایسے میں حکومت کی جانب سے اسے خانگی اداروں کو لیز پر دینے کی تجویز باعث حیرت ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی اور حکومت میں شامل عوامی نمائندوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر یہ اراضی حج کمیٹی کو 30 سال کیلئے لیز پر دی جائے تو اس پر عالیشان حج ہاوز کی تعمیر یقینی ہوسکتی ہے۔ اسی دوران حکومت کے احکامات کے مطابق وقف بورڈ نے گلوبل ٹنڈرس کی کارروائی شروع کردی ہے۔ ٹنڈرس کی طلبی سے قبل حکومت نے بعض بڑے اداروں سے رائے حاصل کرنے کی ہدایت دی جن میں تلنگانہ انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن، تلنگانہ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ ان کے تکنیکی ماہرین کے ذریعہ ٹنڈر اور لیز ڈاکومنٹ کی تیاری میں مدد حاصل کی جائے گی۔ ٹنڈر سے قبل وقف بورڈ کو تمام اراضیات کے موجودہ موقف کا جائزہ لینا ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کارروائی کیلئے حکومت کو کم سے کم دو ماہ درکار ہوں گے۔