مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
اسلام احترام انسانیت پر یقین رکھتاہے،اس لیے وہ ایسامعاشرہ تشکیل دیتاہے جس میں بلالحاظ مذہب وملت وبلالحاظ رنگ ونسل ہرایک انسان قابل عظمت و قابل احترام ہوتا ہے۔اسلام عدل وانصاف کا داعی ،ظلم وجورکا مخالف ہے،اسلامی معاشرہ ہرایک کی جان ومال عزت وآبروکا محافظ ہوتاہے ،برائی کومٹانا ،مظلوموں کی دادرسی کرنا ،اسلام کا نصب العین ہے۔ ایثاروقربانی ،مروت ومہربانی ،رافت ورحمت ،لحاظ وپاس اورہمدردی ،امدادواعانت اسلام کا تشخص ہے۔
تمسخر وایذأرسانی کی اسلام سخت مذمت کرتاہے،اسلام اپنے ماننے والوں کوہرایک انسان کی عزت وتکریم کرنا سکھاتاہے،جس میں پیشوایان مذاہب کو اولین حیثیت حاصل ہے ،عام طورپرمعاشرہ میں استہزأ وتمسخر کا چلن اس وقت شروع ہوتاہے جب دل سے عزت واحترام کا جذبہ ختم ہوجائے،انسانیت کے احترام سے اگریقین اٹھ جائے توپھراس معاشرہ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ایسے معاشرہ میں عداوتیں ہوں گی، دشمنیاں ہونگی،جنگ وجدال ہوگا، قتل وخون کا بازارگرم ہوگا،معاشرہ میں جب ایسی آگ بھڑک اٹھے تو وہاں امن وسکون کہاں رہے گا؟ محبت وپیارکے رشتے کیسے باقی رہ سکیں گے؟معاشرہ جب غیرانسانی اقدار کی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آگیاہوتو اس کی سلامتی وحفاظت کیلئے بہی خواہان انسانیت کو آگے آنا اور اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرنا ضروری ہوجاتاہے۔ان جیسے حالات میں معاشرہ کی زبوں حالی پر لاتعلق بنے رہنا اورتماشہ دیکھتے رہنا کسی حال میں درست نہیں ہوسکتا،ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔جس کے دستورکی بنیادہی یہی ہے کہ یہاں رہنے والے مختلف مذاہب پر عمل پیراایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے زندگی گزاریں ،ہندوستان آزاد ہوئے ۶۴ سال کا عرصہ ہوتاہے لیکن وقفہ وقفہ سے یہاں ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں جس سے دستورکی بے احترامی ثابت ہوتی ہے،پیغمبراسلام سیدنا محمدرسول اللہ ﷺسے مسلمان جس درجہ عقیدت ومحبت رکھتے ہیں اتنی شائد اپنے پیشواسے کوئی نہ رکھتاہوگا،بعض دشمن انسانیت چاہتے یہ ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی وہرزہ سرائی کرکے مسلمانوں کی دل آزاری کریں ،نبی رحمت پیغمبراسلام سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کا مقام مرتبہ اس قدراعلی وارفع ہے کہ اس تک کسی اورانسان کی رسائی نہیں۔خالق کائنات نے جن کو رفعت وعظمت بخشی ہومخلوق میں سے کون ہے جو اس میں کوئی کمی کرسکے،اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادہے’’اورہم نے آپ کے ذکرکو بلندکردیا‘‘(الشرح۴)
سارے عالم میں پانچ وقت مساجد سے اذان کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ،جس میں اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ آپ ﷺ کا ذکربلندکیا جاتاہے۔نمازوں میں اورجب بھی آپ ﷺ کا نام پاک زبانوں پر آتاہے تو درود وسلام کی صدائیں اہل ایمان کے لبوں سے گونج اٹھتی ہیں۔قرآن پا ک میں جا بجاآپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ جمیل ملتاہے۔حدیث شریف میں آتاہے ایک مرتبہ جبرائیل آمین علیہ السلا م آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اورکہا’’رب تبارک وتعالی دریافت فرماتے ہیںکہ میں نے آپ کے ذکرکو کیسے بلندکیا؟
تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا اس حقیقت کو اللہ سبحانہ وتعالی ہی بہترجانتاہے،تو اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا کہ جہاں جہا ں میراذکرکیا جائے گا وہاں وہاں آپ کا بھی ذکرمیرے ذکرکے ساتھ کیا جاتا رہے گا،تمام آسمانی کتابوں اورصحیفوں میں آپ ﷺ کا تذکرہ جمیل محفوظ ہے۔‘‘کلمہ طیبہ اورکلمہ شہادت میں اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب ﷺ کا ذکر شامل فرمایا، اللہ سبحانہ کے ساتھ آپ ﷺ کی نبوت کی شہا دت دئے بغیر ایمان ثابت نہیں ہوتا ،حضورانورسیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر اتنا کچھ لکھاگیا کہ اتنا کسی اورکے بارے میں نہیں لکھا گیا ،آپ ﷺ کے اوصاف جمیلہ کا تذکرہ کرنے والوں میں اپنے بھی ہیں اوربیگانے بھی ۔ جب تک گردش لیل ونہا ر باقی رہیں گے آپ ﷺ کا تذکرہ جمیل نہ صرف جاری وساری رہے گابلکہ میدان محشرمیں بھی آپ ﷺکی رفعت کا علم بلند رہے گا۔ایسی مقدس ومبارک اوراللہ سبحانہ کی محبوب ہستی (ﷺ)کے بارے میں ہر زہ سرائی کرنے والا اپنے دہن ہی کو گندہ نہیں کرتابلکہ اپنے پورے وجود کو نجس وناپاک کرلیتاہے۔آپ ﷺ پر انگلی اٹھانے والے نیست ونابود ہوجائیںگے ۔
اللہ تعالی ارشادہے’’یقینا جولوگ اللہ کو اوراس کے رسول ﷺ کو ایذا پہنچاتے ہیں ان پر دنیا وآخر ت میں اللہ کی پھٹکارہے اوران کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے ‘‘(الاحزاب ۵۷)۔اللہ سبحانہ کو ایذاپہنچانے سے کیا مراد ہے اس کی ایک تعبیر تویہ ہے کہ زمانہ کی حوادث ومصائب کا سامنا ہو ،تووقت اورزمانہ کو براکہا جائے ظاہر ہے زمانہ کو براکہنا گویا اللہ کو براکہنا ہے کیونکہ زمانہ خود فاعل نہیں ہے بلکہ فاعل حقیقی تو اللہ سبحانہ ہی کی ذات ہے ۔ایک دوسری تعبیر بھی شارحین نے بیان کی ہے کہ اس سے مرادرسول اللہ ﷺ کو ایذاپہنچانا اللہ سبحانہ کو ایذاپہنچانا ہے۔اس لئے یہاں ایذائے رسول کو ایذائے حق تعالی سے تعبیرکیاگیاہے،ایک حدیث پاک میں آپ کا یہ ارشاد پاک ہے’’ومن آذانی فقدآذی اللہ ‘‘یعنی جس نے مجھے ایذادی اس نے اللہ کو ایذادی (جامع الترمذی)۔ آپ ﷺ کا مرتبہ تو بہت اعلی وارفع’’ بعدازخدابزگ توئی قصہ مختصر ‘‘ کے مصداق ہے لیکن ایمان کی نعمت سے مشرف آپ ﷺ سے نسبت رکھنے والوں کی تنقیص شان یا ان کی توہین کرکے ان کو ایذاپہنچا نابھی قابل مذمت ہے۔ (الاحزاب ۵۸)۔پیغمبراسلام حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکے بارے میں اہانت آمیز کارٹونس بنانے یا آپ ﷺ کی شان پاک میں ہرزہ سرائی کرنے کو دشمنان اسلام نے اپنا وطیرہ بنالیا ہے۔ایسے دشمنان اسلام اورشاتمان رسول مغرب میں بھی ہیں اورمشرق میں بھی ،چنانچہ حال ہی میں کملیش تیواری نے شان رسالت میں گستاخی وبے ادبی کا ارتکاب کیا۔اس کی وجہ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے، اس غم کا ابھی مداوا نہیں ہوپا یا تھا کہ پھرسے یہ زخم ہراہوگیا،پبلک سرویس کمیشن کے امتحانا ت کے تیاری کیلئے بنڈلہ پبلی کیشن کی طرف سے شائع کردہ کتاب میں بھی گستاخی کیگئی ہے۔ آئے دن یہ سلسلہ ایک سوچی سمجھی سازش کے ساتھ جاری ہے،مسلمانوں کی جانب سے شدید احتجاج کے باوجود یہ کتاب بازارمیں فروخت ہو رہی ہے۔اس کتاب کے پبلی کیشن کوتوگرفتارکیاگیاہے لیکن اس کے اصل مجرم کتا ب کی مصنف کی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آئی ۔اس کو بھی گرفتارکرنا چاہئے ،یہ بھی کہ صرف گرفتارکرلینا کافی نہیں بلکہ مجرمین کو قرارواقعی سزابھی ملنی چاہئے،اس کے لئے موثرقانونی کاروائی بھی ضروری ہے۔دنیا اورخودہندوستان کے دستور کے مطابق مجرمین کو ایسی سزادی جانی چاہئے جس کی وجہ دوسرے شاتمان رسول کے حوصلے پست ہوں ،مسلمان اس کا مطالبہ کرنے میں ازروئے دستورحق بجانب ہیں ، اس جرم کی پاداش میں اللہ سبحانہ کی طرف سے ہونے والے عتاب سے تو چھٹکارہ ممکن ہی نہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے’’اے نبی ﷺ آپ سے پہلے بھی بلاشبہ رسولوں کے ساتھ استہزاء کیاجا چکا ہے جس کا نتیجہ یہ رہا خود ان تمسخرکرنے والوں کو ان کے استہزاء نے گھیرلیا‘‘ (الانعام ۱۰)
سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے ایسے پانچ افرادتھے جو اپنی قوم میں بڑے مانے جاتے تھے ،ولیدبن مغیرہ مخزومی ،اسود بن عبد یغوث زہری ،ابوزمعہ اسودبن عبد المطلب اسدی،حارث بن قیس خزاعی اورعاص بن وائل سہمی ان کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ’’کہ ان کے شرسے حفاظت کیلئے تنہا اللہ کے ذات کافی ہے ،پھران میں سے ہر ایک پر ایسی عبرت آمیزآفت وبلا نازل ہوئی جو ان کے وہم گمان میں بھی نہیں تھی ۔ولیدبن مغیرہ کے بارے میں آتاہے کہ اسے کبھی سابق میں تیرسے ایک معمولی زخم آگیا تھا جس سے کوئی خطرہ اسے محسوس نہیں ہورہا تھا،لیکن جبرائیل آمین علیہ السلام نے اس معمولی خراش کے نشان کی طرف ایسااشارہ کیا کہ جس سے وہ زخم پھوٹ پڑا برسوں اس کی شدید تکلیف میں رہا ،پھرموت کے منہ میں چلا گیا ۔اسودبن عبد یغوث کے سرکی طرف حضرت جیرائیل امین نے اشارہ کیا جس سے پھوڑے نکل آئے یا اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا جس سے وہ استسقاء کی بیماری میں مبتلا ہو گیا اسی بیماری نے اس کا کام تمام کردیا۔ اسود بن عبد المطلب کی اذیتیں پہنچانے کا سلسلہ جاری تھا آپ ﷺ نے بددعاء فرمائی کہ اس کی بینائی چھین جائے اوروہ اپنے بیٹے سے محروم کردیا جائے ،دونوں دعائیں قبول ہوئیں ،عاص بن وائل ایک کانٹے داردرخت پر بیٹھ گیا تھا جس کا کانٹا اس کے پیر میں چبھ گیا اس کا زہر اس کے سارے جسم میں سرایت کرتے ہوئے اس کے دماغ تک پہنچ گیا اور اس زہر کے اثرسے تکلیف سہتے ہوئے دنیا سے منہ کالاکرگیا ۔اس میں شاتمان رسول ﷺ کیلئے سامان عبرت ہے ۔