جب برق کررہی تھی نشیمن نوازیاں
کچھ تو ہوائے سرد گھڑی دو گھڑی چلی
اکھیلیش ۔ راہول مہم
قومی اور تاریخی پارٹی ’’کانگریس ‘‘کو اپنی سیاسی بقاء کیلئے ایک ایسی سطح تک پہونچنے کی نوبت آگئی جہاں پہونچنے نووارد سیاسی پارٹی ہزار بار سوچے گی۔ اُترپردیش اسمبلی انتخابات کے لئے سماج وادی پارٹی سے اتحاد کرکے کانگریس نے صرف 105 نشستوں سے مقابلہ کرنے پر اکتفا کیا اور چیف منسٹر یوپی اکھیلیش یادو کے ساتھ نائب صدر کانگریس راہول گاندھی کی انتخابی مہم علانیہ طور پر بقاء کیلئے لڑی جانے والی جنگ کا آخری پڑاؤ معلوم ہورہی ہے۔ چیف منسٹر اکھیلیش یادو نے جب یہ کہا کہ وہ اور راہول گاندھی اُترپردیش اسمبلی انتخابات کے لئے مختص انتخابی نشان ’’سائیکل‘‘ کے دو پہیہ ہیں۔ ان کا یہ نعرہ بھی موقتی سیاسی مجبوری کا مظہر ہے کہ ان دونوں کا ساتھ یو پی کو بھی پسند ہے۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی اتحاد پر ناراض ملائم سنگھ یادو کا سیاسی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کا اتحاد رائے دہندوں پر اثرانداز نہیں ہوسکے گا۔ دونوں پارٹیوں کو کل تک یہ زعم تھا کہ وہ تنہا اپنے بل پر انتخابی مقابلہ کرسکتی ہیں۔ سابق برسوں میں ان دونوں نے تنہا ہی مقابلہ کیا تھا۔ اس میں سماج وادی پارٹی کو کبھی کامیابی اور ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا تھا۔ اس مرتبہ کانگریس نے مرکز کی بی جے پی حکومت کے زور کو توڑنے کے لئے سماج وادی پارٹی سے اتحاد کو ترجیح دی۔ کانگریس کی کٹر حریف سماج وادی پارٹی کل تک کانگریس کی شدید نکتہ چیں تھی۔ سماج وادی پارٹی کے کیڈرس اور لیڈرس کو اس اتحاد پر خوشی نہیں ہوگی کیونکہ اتحاد کے باعث سماج وادی پارٹی نے کانگریس کو 105 حلقے دیئے ہیں۔ اس سے سماج وادی پارٹی کے قائدین ٹکٹ سے محروم ہوگئے۔ اگر یہ اتحاد نہ ہوتا تو ایس پی 403 رکنی یوپی اسمبلی کی تمام نشستوں پر اپنے اُمیدوار ٹھہراتی اور اُدھر کانگریس کو بھی حلقوں پر امیدوار کھڑا کرنا وقار کا مسئلہ بن جاتا۔ یوپی میں بی جے پی کو دوبارہ طاقتور ہونے سے روکنے کیلئے اس اتحاد کو ضروری سمجھا جارہا ہے۔ ایک بڑی پارٹی کا چھوٹا دماغ اپنی کامیابی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ عوام کا دِل جیتے بغیر کانگریس کو یوپی میں ووٹ ملنا مشکل ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے اقتدار سے محروم کانگریس کو نہ صرف اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑائی ہے بلکہ دیگر ریاستوں میں آزادانہ طور پر مہم چلاکر کانگریس امیدواروں کی زیادہ سے زیادہ کامیابی کے لئے حوصلہ بڑھانا ہے۔ جہاں خوشحال یوپی کے نعرے لگائے جارہے ہیں، وہیں فرقہ پرستوں کی سازشیں گہری ہورہی ہیں۔ بی جے پی کو یہ انتخابات جیتنے ایک اہم چیلنج ہوگا کیونکہ اس کے تمام بڑے قائدین پارٹی کی مہم چلا رہے ہیں۔ ایک طاقتور منصب کے لئے ایک تنازعہ اتحاد کارگر نہیں ہوگا۔ بی جے پی کی تیز آندھی کو روکنے میں اگر یہ اتحاد کامیاب ہوتا ہے تو اس کے بعد یوپی اور مرکزی سیاست میں یکسر تبدیلی آئے گی۔ کانگریس اس وقت ایک ایسے سیاسی دو راہے پر کھڑی ہے کہ اگر اس نے اتحاد نہ کیا تو بھی مسائل تھے، اور اب اتحاد کیا ہے تو بھی مسائل ہیں۔ چیف منسٹر یوپی اکھیلیش یادونے یوپی کو امن ، ترقی و خوشحالی والی ریاست بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ بی جے پی کے تعلق سے کھلے عام یہ بات گشت ہورہی ہے کہ وہ یوپی کا الیکشن کامیاب کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جائے گی۔ کانگریس۔ ایس پی کا یہ اتحاد بی جے پی کے نفرت و انتشار پر مبنی ایجنڈہ کو شکست دینا ہے۔ کسی طاقت کو شکست دینے کے لئے دیگر طاقتوں کا متحد ہونا ضروری ہے تو پھر کانگریس۔ سماج وادی پارٹی کو مل کر یوپی کی سیاست میں اپنے احیاء کے لئے کوشاں بی جے پی کو شکست دینے کافی شدت سے مہم چلانے کی ضرورت ہوگی۔ اکھیلیش یادو نے چیف منسٹر کی حیثیت سے چند اچھے کام کئے ہیں تو اس کا سہرا وہ خود اپنے سَر لینے کے حقدار بھی ہیں۔ ان کے والد کی مخالف کانگریس رائے سے پارٹی کی انتخابی مہم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بی جے پی کو ایک نارمل سیاسی پارٹی سمجھنا بھی دونوں اتحادی پارٹیوں کے لئے نقصان دہ ہوگا، اس لئے دونوں جانب اپنی انتخابی مہم کا زور برقرار رکھنے کی کوشش ہونی چاہئے۔