اکلِ حلال اور صدق مقال کی اہمیت

قاری محمد مبشر احمد رضوی القادری
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’اے ایمان والو! ہم نے تم کو روزیاں بخشیں، ان میں سے طیب چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر بجالاؤ اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو‘‘ (سورۃ البقرہ) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت شریفہ کا مطلب یہ ہے کہ تم وہ روزی کھاؤ، جو حرام اور خبیث نہ ہو، بلکہ حلال بھی ہو اور طیب بھی ہو، کیونکہ طیب روزی کھانے والے کی زندگی بھی طیب ہوتی ہے اور خبیث روزی کھانے والے کی زندگی خبیث۔ کھانے کا اثر دل و دماغ اور خیالات سب پر پڑتا ہے۔ حلال و طیب روزی سے خیالات میں پاکیزگی، دل میں نورانیت و نرمی، عبادتوں میں خشوع و خضوع، آنکھوں میں تری، نمازوں میں لذت، دعاؤں میں قبولیت اور زبان میں تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’شریعت کے دیگر فرائض کے بعد حلال روزی حاصل کرنا فرض ہے‘‘۔ (بیہقی و مشکوۃ)

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس بدن کو حرام غذا دی گئی، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا‘‘۔ (بیہقی و مشکوۃ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا، جب کہ کوئی اس بات کی پرواہ نہ کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا، وہ حلال ہے یا حرام‘‘ (بخاری شریف) ایک اور حدیث شریف میں یہ وضاحت ہے کہ ’’جو لوگ حرام غذا اور حرام لباس استعمال کرتے ہیں، ان کی دعائیں بارگاہ احدیت میں قبول نہیں ہوتیں‘‘۔ (کتب حدیث)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے خدمت نبوی میں عرض کیا ’’یارسول اللہ! دعاء فرمائیے کہ میں مقبول الدعاء بن جاؤں‘‘ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’حلال و طیب روزی کھاؤ، حرام اور خبیث سے بچو، مقبول الدعاء بن جاؤ گے‘‘۔

صوفیہ کرام فرماتے ہیں کہ طیب روزی وہ ہے، جو تین عیبوں سے پاک ہو اور تین خوبیوں سے موصوف ہو، یعنی بذات خود بری نہ ہو، برے ذریعہ سے حاصل نہ ہو اور برے مقصد کے لئے حاصل نہ کی جائے، بلکہ بذات خود اچھی ہو، اچھے ذریعہ سے حاصل ہو اور اچھے مقصد کے لئے استعمال کی جائے۔ سلف صالحین فرماتے ہیں کہ ساری برائیوں اور غلط کاریوں کی بنیاد کا سرچشمہ حرام غذا ہے، جس کے شکم میں حرام اور مشتبہ غذا ہوگی، اس سے صادر شدہ تمام افعال و اقوال بھی حرام ہی ہوں گے اور اگر حلال و پاکیزہ غذا ہوگی تو نیک اعمال اور اچھے کردار کا صدور ہوگا۔
صدق مقالی (سچ بولنا) اور سچ کہنا سنت الہیہ ہے۔ سچائی تمام بھلائیوں اور نیکیوں کی جڑ ہے، جو انسان صدق بیانی کو اپنا شعار بنا لیتا ہے، اس کی زندگی انتہائی کامیاب اور پرسکون گزرتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا ’’سچ (ہمیشہ) نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی راہ دکھاتی ہے۔ آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق (سچا) بن جاتا ہے۔ اور جھوٹ بدی کا راستہ دکھاتا ہے اور بدی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالی کے پاس جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے‘‘ (مسلم شریف) حضرت ابو محمد حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شک و شبہ والی چیز کو چھوڑکر شک سے پاک چیز کو اختیار کرو، بے شک سچ سکون اور جھوٹ شک و شبہ ہے‘‘۔ (ترمذی شریف)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا ’’یارسول اللہ! جنت میں لے جانے والا کونسا عمل ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’سچ بولنا، جب آدمی سچ بولتا ہے تو وہ نیکی کرتا ہے اور جب وہ نیکی کرتا ہے تو وہ گناہ سے محفوظ ہو جاتا ہے اور جب وہ محفوظ ہو جاتا ہے تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے‘‘۔ اس نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! دوزخ میں لے جانے والا کونسا عمل ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’جھوٹ، جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو وہ برائی کرتا ہے اور جب وہ برائی کرتا ہے تو وہ کفر کرتا ہے اور جب وہ کفر کرتا ہے تو دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے‘‘۔ (مسند احمد)

حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھا گیا کہ ’’مؤمن بزدل ہوتا ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’ہو سکتا ہے‘‘۔ پھر عرض کیا گیا کہ ’’مؤمن بخیل ہو سکتا ہے؟‘‘۔ فرمایا ’’ہاں ہوسکتا ہے‘‘۔ پھر پوچھا گیا کہ ’’مؤمن جھوٹا ہوسکتا ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’نہیں‘‘۔ (بیہقی، مشکوۃ)