بولوں اگر میں جھوٹ تو مر جائے گا ضمیر
کہہ دوں اگر میں سچ تو ماردیں گے مجھے لوگ
اڈوانی کے ریمارکس
سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی کو بی جے پی نے عملا پارٹی کے تقریبا تمام امور سے دور کردیا ہے ۔ وہ دھیرے دھیرے گوشہ گمنامی میں جا رہے ہیں۔ جس طرح سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی وزارت عظمی سے سبکدوشی کے بعد اپنی علالت کی وجہ سے گوشہ گمنامی میں چلے گئے ہیں اسی طرح ایل کے اڈوانی کو بھی پارٹی نے دور کردیا ہے ۔ حالانکہ اڈوانی ہنوز چاق و چوبند اور صحتمند ہیں لیکن پارٹی انہیں اب اپنے لئے فائدہ مند تصور نہیں کرتی ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ایل کے اڈوانی اب کچھ عرصہ سے ایسے ریمارکس کرنے لگے ہیں جو بی جے پی اور مرکز کی نریندر مودی حکومت کیلئے پریشانی اور الجھن کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ اڈوانی نے گذشتہ دنوں ملک میں ایمرجنسی کے تعلق سے ریمارکس کیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں اندیشہ ہے کہ ہندوستان میں ایک بار پھر ایمرجنسی نافذ ہوسکتی ہے ۔ ان کے ان ریمارکس کو بی جے پی اور اس کے قائدین نے اہمیت دینے سے گریز کیا تھا کیونکہ ان ریمارکس سے حکومت کے امیج پر سوال اٹھ رہے تھے ۔ اب اڈوانی نے عوامی زندگی میں صداقت و دیانت کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ انہوں نے یہ ریمارکس ایسے وقت کئے ہیں جبکہ بی جے پی کی مرکزی حکومت کو اپنی خاتون وزرا سے مسائل کا سامنا ہے اوران وزرا پر مختلف قسم کے الزامات ہیں۔ وزیر خارجہ سشما سوراج اور چیف منسٹر راجستھان وسندھرا راجے سندھیا پر آئی پی ایل میں رقمی خرد برد کے الزامات کا سامنا کرنے والے سابق کمشنر للت مودی کی مدد کرنے کا الزام ہے ۔ وسندھرا راجے سندھیا کے تعلق سے تو کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے للت مودی کی مدد کرتے ہوئے اپنے اور اپنے فرزند و بہو کیلئے مالی منفعت حاصل کی تھی ۔ سشما سوراج پر للت مودی کو لندن میں سفری دستاویزات کی اجرائی کیلئے سفارش کا الزام ہے ۔ ایک اور مرکزی وزیر سمرتی ایرانی پر اپنی تعلیمی قابلیت کے تعلق سے غلط بیانی کا الزام ہے جبکہ مہاراشٹرا کی وزیر پنکجا منڈے پر 206 کروڑ روپئے کی معاملت میں قوانین کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے ۔ ان تمام خاتون وزرا سے اپوزیشن جماعتیں مسلسل استعفی کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ حالانکہ حکومت ان کے دفاع میں اتر آئی ہے لیکن اس کا موقف کمزور ہے اور اپوزیشن کے حوصلے بلند ہیں۔
اس صورتحال میں ایل کے اڈوانی نے عوامی زندگی میں صداقت و دیانت کی بات کہتے ہوئے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ بھی ان خاتون وزرا کے خلاف کارروائی کے حق میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان سے استعفے طلب کرلئے جائیں۔ ایل کے اڈوانی نے اپنے ریمارکس میں یہ ادعا کیا ہے کہ جب حوالہ کیس میں جین برادران کی ڈائری میں ان کا نام سامنے آیا تھا انہوں نے سینئر لیڈر اٹل بہاری واجپائی کے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفی پیش کردیا تھا ۔ جب اس کیس میں ان کو کلین چٹ مل گئی تو انہوں نے دوبارہ انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی ۔ اس طرح ایل کے اڈوانی نے بین السطور میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ان تمام وزرا کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے علیحدہ کیا جانا چاہئے اور جب تک انہیں الزامات منسوبہ سے برات نہیں مل جاتی اس وقت تک انہیں عہدوں سے دور رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اڈوانی کے یہ ریمارکس بھلے ہی بی جے پی کیلئے قابل قبول نہ ہوں اور بی جے پی ان کو اہمیت دینے کو تیار نہ ہو لیکن کانگریس نے ضرور اس سے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کاکہنا ہے کہ داغدار وزرا کے استعفی سے متعلق اس کے مطالبہ کی ایل کے اڈوانی کے ریمارکس سے توثیق ہوگئی ہے اور اس کا اپنا موقف درست ہے ۔ اڈوانی کے یہ ریمارکس مرکز کی نریندر مودی حکومت کیلئے ‘ جو پہلے ہی مسائل کا شکار ہے ‘ مزید الجھن اور مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
وزیر اعظم کی حیثیت میں نریندر مودی ابھی تک ان مسائل پر لب کشائی سے گریز کئے ہوئے ہیں۔ صرف بی جے پی کے چند قائدین ان خاتون وزرا کے دفاع میں آگے آئے ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ کرپشن کے معاملہ میں بی جے پی کی جو امیج بنائی جا رہی تھی وہ ان اسکامس اور الزامات کے نتیجہ میں چکنا چور ہوگئی ہے ۔ قومی سطح پر حکومت کی مقبولیت کا گراف گھٹتا جا رہا ہے اور اس کا اثر جاریہ سال کے اواخر میں بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر بھی پڑسکتا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ نریندر مودی ایک حکمت عملی کے تحت خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہ ان وزرا کے خلاف بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے بعد کارروائی کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ تاہم اس وقت تک کافی دیر ہوجائیگی اور ایل کے اڈوانی کے ریمارکس نے حکومت کیلئے اور بھی مسائل پیدا کردئے ہیں۔ حکومت کانگریس کی تنقیدوں کا جواب تو دے سکتی ہے لیکن اس کیلئے خود اپنے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی کے ریمارکس پر رد عمل کا اظہار کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔