اچھے دن اور وزیر اعظم

باتیں ہیں دلفریب تری لیکن اے ندیم
باتوں سے دل بہلنے کے دن اب گذر گئے
اچھے دن اور وزیر اعظم
گذشتہ سال لوک سبھا انتخابات سے قبل اچھے دن لانے ملک کے عوام سے کئے گئے وعدے کرتے ہوئے بی جے پی اور خاص طور پر نریندر مودی نے ووٹ حاصل کئے تھے ۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد ملک کے عوام کو اور مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان اچھے دنوں کا انتظار تھا ۔ این ڈی اے کی حلیف جماعتیں بھی اچھے دن کا انتظار کر رہی تھیں تو اپوزیشن جماعتیں بھی یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ اچھے دن کس طرح سے لائے جائیں گے اور یہ اچھے دن ہونگے کیسے ؟ ۔ سماج کا شائد ہی کوئی طبقہ ایسا تھا جو اچھے دن کا انتظار نہیں کر رہا تھا ۔ طلبا برادری ہو کہ نوجوان ہوں ‘ کسان برادری ہو کہ سرکاری ملازمین ہوں ‘ عام آدمی ہو کہ غیر منظم شعبہ میں کام کرنے والے افراد ہوں سبھی کو اچھے دنوں کا انتظار تھا ۔ جب مودی حکومت کے اقتدار کا وقت گذرنے لگا تو یہ سوال بھی ہونے لگے کہ آخر اچھے دن کب آئیں گے ۔ حکومتک ی حلیف جماعتیں ہوں یا اپوزیشن جماعتیں ہوں ‘ کسان ہوں یا عام آدمی ہوں ہر گوشہ یہ سوال کر رہا تھا کہ آخر اچھے دن کب آئیں گے ۔ اب جبکہ نریندر مودی حکومت نے اقتدار پر اپنا پہلا سال مکمل کرلیا ہے تو ان اچھے دنوں کے تعلق سے اور بھی شدت سے سوال ہو رہے تھے ۔ اب اچانک ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک انٹرویو میں یہ دعوی کردیا کہ اچھے دن آچکے ہیں۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اچھے دن سوائے وزیر اعظم یا بی جے پی اور این ڈی اے کے حامی کارپوریٹ شعبہ کے کسی اور کو نظر نہیں آ رہے ہیں۔ صرف حکومت یہ دعوی کرکے مطمئن ہوتی جا رہی ہے کہ اس نے ملک میںاچھے دن لا دئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی حکومت کے ایک سال میں ملک میں صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے اور نہ ہی ’ وکاس ‘ ہوا ہے ۔ نریندر مودی نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے اور سب کے وکاس کو یقینی بنائیں گے ۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ حکومت نے سوائے کارپوریٹس کے کس کو ساتھ لیا ہے اور کس کے وکاس کو یقینی بنایا ہے ۔ اب تک صرف کارپوریٹ شعبہ پر مہربانیوںکا سلسلہ جاری ہے ۔ ملک کے عوام کو یہ احساس ابھی تک نہیں ہوسکا ہے کہ ان کے وکاس کیلئے حکومت نے کچھ کیا ہے ۔
آج ملک میں یہ حالت ہے کہ بین الاقوامی مارکٹ میں فیول کی قیمتوںمیں گراوٹ کے باوجود پٹرول اورڈیزل کی قیمتوںمیں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ فیول کی قیمتوں میں اضافہ کے اثرات سے ترکاریاں اور اناج مہینگے ہوگئے ہیں۔ دودھ کی قیمتوںمیں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے اور عوام یہ اضافی بوجھ برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے نوجوان روزگار کے انتظار میں اپنی عمریں گذارتے جا رہے ہیں۔ انہیں روزگار فراہم کرنے کی بجائے سوچھ بھارت کے نام پر جھاڑو تھمادی گئی تھی ۔ سوچھ بھارت پروگرام جس تیزی اور تشہیر کے ساتھ شروع ہوا تھا ایسا لگتا ہے کہ اسی تیزی سے وہ از خود ختم ہوگیا ہے ۔ اس پروگرام کے تعلق سے حکومت نے نوجوانوں میں جو جوش و جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اس میں اسے ناکامی ہوئی ہے ۔ ہندوستان بھر میںکسان سب سے ابتر حالت میںہیں ۔ انہیں جہاں اپنی فصلوں پر نقصان کا سامنا ہے وہیں ان کی اراضیات حاصل کرنے میں حکومت بہت تیزی سے آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔ کسانوں کو امداد کی فراہمی پر توجہ دینے کی بجائے ان کی اراضیات حاصل کرکے کارپوریٹ شعبہ کو خوش کرنا حکومت کا اولین مقصد بنتا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حصول اراضی آرڈیننس کو تیسری مرتبہ جاری کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ غیر موسمی بارش اور دوسرے حالات نے کسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور حکومت اس جانب توجہ دینے کو تیار نظر نہیں آتی ۔ وزیر اعظم اندرون ملک کے حالات پر توجہ دینے اور انہیں بہتر بنانے کی بجائے بیرونی دوروں میں زیادہ وقت گذارنا چاہتے ہیں۔ بیرونی دوروں کے موقع پر خود کی تصاویر بناتے ہوئے انہیں زیادہ خوشی محسوس ہورہی ہے ۔
ملک کی اقلیتوں کیلئے الگ عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ گھر واپسی پروگرام کے ذریعہ انہیں ہراسانی کا سامنا ہے تو کسی گوشے سے انہیں پاکستان چلے جانے کا بنا طلب مشورہ دیا جا رہاہے ۔ کہیں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی جا رہی ہے تو کہیں عبادتگاہوں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ ملک میں خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ خواتین کے خلاف حملوں کے واقعات اور عصمت ریزی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اگر اس سارے منظر نامہ کو اچھے دن کہا جاسکتا ہے تو پھر برے دن کیسے ہونگے اس کی خود وزیراعظم کو وضاحت کرنی چاہئے۔ زبانی دعوی کرنے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی بجائے حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم کو خوش فہمی میں مبتلا رہنے کی بجائے حقیقت میں اچھے دن لانے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔