اپوزیشن کی ذمہ داری

تم اپنے حُسن پہ نازاں تو ہم وفاؤں پر
کریں گے دونوں حکومت چلو ہواؤں پر
اپوزیشن کی ذمہ داری
وزیراعظم کی ذمہ داری صرف ایک پارٹی چلانا نہیں ہوتی بلکہ ملک کے امور کو درست طریقہ سے چلانا بھی ہوتا ہے ۔ مرکز سے لے کر ریاستوں کے سیاسی معاملوں میں نریندر مودی کی مداخلت اور اپوزیشن کا تعاقب کرنے کی عادت سے اقتدار کے ساڑھے چار سال ضائع ہوگئے ۔ کانگریس زیر قیادت بعض اپوزیشن پارٹیوں نے یہی بات دہرائی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی حکومت کے فرائض پر دھیان دینے سے زیادہ اپوزیشن کے حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ اپوزیشن کے اتحاد پر تنقیدیں کرنے کو اپنا معمول بنالیا ہے ۔ جب کہ اپوزیشن پارٹیاں آنے والے 2019 کے عام انتخابات کے لیے پوری طرح متحد ہیں ۔ وزیراعظم کے رویہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مایوسی کا شکار ہیں کیوں کہ ان کا این ڈی اے گروپ منتشر ہورہا ہے ۔ وزیراعظم مودی نے اپوزیشن کے اتحاد کو مضحکہ خیز قرار دے کر اسے ذاتی بقا کی کوشش قرار دیا تھا ۔ جس اپوزیشن اتحاد کا کوئی نظریہ نہ ہو تو وہ عوام کی خواہشات سے زیادہ اپنی بقا کے لیے کام کرے گی ۔ اپوزیشن کے مہا گٹھ بندھن کو خاندانی حکمرانی کا ٹولہ قرار دیا ۔ جس کے پاس کوئی ترقیاتی نظریہ نہیں ہے ۔ یہ اپوزیشن پارٹیوں نے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے وزیراعظم کے دعویٰ کو مونگیری لال کے سپنے قرار دیا ۔ اپوزیشن اور حکومت نے ان چار سال میں عوام کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے ۔ ہر دو نے اپنا ایک ہی راستہ اختیار کیا یعنی حکومت سے اپوزیشن کا تعاقب کیا تو اپوزیشن نے حکومت کے خلاف اپنے ٹولے کو مضبوط کرنے کی دوڑ دھوپ کی ۔ عوام کے حق میں کسی قسم کا فلاح و بہبود کا کام انجام نہیں دیا گیا ۔ پارلیمنٹ میں آواز اٹھانے والے اپوزیشن قائدین نے دفاعی شعبہ کے لیے خریداری کے معاملے میں ہونے والے اسکامس کو آشکار نہیں کیا صرف فرانس سے خریدے جانے والے رافیل طیاروں کے معاہدہ پر شور مچایا ۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ رافیل طیاروں کی خریداری میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہونے کا شبہ پیدا ہوا ہے ۔ رافیل معاہدہ میں سب سے بڑا اسکام ہوا ہے تو یہ بوفورس اسکام سے زیادہ سنسنی خیز اور حیرت انگیز ثابت ہوتا مگر اپوزیشن اس رافیل معاہدہ اسکام کو منکشف کرنے میں ناکام رہی ۔ نتیجہ میں مرکزی بی جے پی حکومت دفاعی امور میں حکومت کی کارکردگی پر اٹھنے والی انگلیوں کو ہی مشکوک بناکر عوام کے سامنے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اپوزیشن پارٹیاں ملک کی قومی سلامتی کے معاملہ میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہی ہیں ۔ وزیراعظم بننے کے لیے کسی بھی لیڈر کو دیوہیکل طاقت سے بار بار ٹکرانا پڑتا ہے ۔ مگر اپوزیشن خود کو دیوہیکل طاقت ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی ۔ بوفورس کی طرح اگر مودی حکومت کا رافیل معاہدہ بھی بدعنوان ہوا ہے تو اس کے لیے اپوزیشن کو آواز اٹھانے کا پورا اختیار حاصل ہے لیکن اس نے اسکام کے معاملہ کو نظر انداز کردیا ۔ پارلیمنٹ میں رافیل معاہدہ پر تقریر کرنے والے صدر کانگریس راہول گاندھی نے یہ موقع گنوا دیا کہ مودی حکومت کے اس رافیل معاہدہ کی جے پی سی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا جانا ۔ اسکام کے خلاف ٹھوس شواہد اور قانون کے مطابق جلد از جلد منطقی انجام تک پہونچا جاسکتا تھا ۔ کرپٹ عناصر اور کرپشن مافیا کے خلاف کارروائی کب ہوگی یہ غیر واضح ہے کیوں کہ ملک و قوم کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ نااہل افراد کے ہاتھوں اقتدار چلے جانا ہے ۔ اپوزیشن سے سیاسی انتقام لینے کی آرزو نقصان دہ ہوسکتی ہے ۔ عوام کی مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔ اس لیے ملک کی ترقی و استحکام کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوتا ہے مگر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان دوری بڑھتی گئی ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ملک کے وسیع تر مفاد میں ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ ملک کی معیشت کی زبوں حالی پر ماتم کرنے والی حکومت اور اپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولنے میں ہی مصروف رہ گئے ہیں ۔ آنے والے عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ آئے گا تو اس موقع پر نمبر گیم میں کامیاب ہونے کے لیے حکومت جو کچھ کوشش کرے گی اسے شفاف اور منصفانہ حرکت نہیں کہا جائے گا لہذا اپوزیشن کو از خود یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے آنے والے انتخابات کے لیے ملک کے عوام کو منہ دکھانا ہے تو اپنی ذمہ داری کو بروے کار لانے کا مظاہرہ کرے ۔۔