اپوزیشن کو حکومت سازی کی امید

ہم اپنی ہی ایک خاص الگ رکھتے ہیں پہچان
دشمن کے مخالف نہ ہی یاروں کے طرفدار
اپوزیشن کو حکومت سازی کی امید
مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف اپوزیشن پارٹیوں نے اپنی مہم تیز کرتے ہوئے امید کا دامن ترک نہیں کیا ہے ۔ اگزٹ پولس کی پیش قیاسی کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن قائدین نے صاف کہہ دیا کہ یہ اگزٹ پولس بکواس ہیں ۔ عوام کی نبض کو پہچاننے میں بھی ناکام ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے ہی اپوزیشن پارٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب آکر حکومت سازی کی فکر کو کامیاب بنانے کے لیے متحد ہونے کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے ۔ اگر یہ اگزٹ پولس غلط ثابت ہوں تو مرکز میں اقتدار کے حصول کے لیے دوڑ لگانے والی اپوزیشن پارٹیوں کو وزارت عظمیٰ کے عہدہ کے معاملہ میں فراخدلی سے کام لینے کی ضرورت ہوگی ۔ حکومت بنانے کی مہم میں سونیا گاندھی کے ساتھ ساتھ چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو اپوزیشن کو متحد کرنے میں مصروف ہیں ۔ اس خصوص میں چندرا بابو نائیڈو نے دہلی میں صدر کانگریس راہول گاندھی سے ملاقات کی ۔ گذشتہ 24 گھنٹوں کے اندر نائیڈو کی راہول گاندھی سے یہ دوسری ملاقات تھی ۔ چندرا بابو نائیڈو نے اب تک کئی قومی قائدین سے ملاقات کر کے حکومت سازی کے عمل کو تیز کردیا تھا ۔ اگر واقعی اگزٹ پولس غلط ثابت ہوتے ہیں اور معلق پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے تو پھر اپوزیشن کے سامنے وزارت عظمیٰ کا امیدوار منتخب کرنا بھی ایک بڑے چیلنج سے کم ذمہ داری نہیں ہوگی ۔ یہ غور طلب بات ہے کہ چیف منسٹر آندھرا پردیش نے دہلی میں کیمپ کرتے ہوئے اپنی ریاست کے علاوہ دیگر پڑوسی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو اگر سونیا گاندھی کی ٹیم بی کے طور پر کام کررہے ہیں اور اس سلسلہ میں انہیں حیدرآباد میں حالات کے مکمل واضح ہونے تک محدود سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔ اقتدار حاصل کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جانا اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بنیادی حقائق کا جائزہ لینا اہم سوال ہے ۔ اگزٹ پولس کے باہر آنے کے بعد بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے صدر کانگریس راہول گاندھی اور یو پی اے چیرپرسن سونیا گاندھی سے ملاقات کا فیصلہ کیا ۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے ۔ اب تک اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں ۔ بی جے پی کے خلاف اپنا ایک مضبوط محاذ بنانے کی جانب اہم پیشرفت ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی نے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن اب لوک سبھا کے قطعی نتائج 23 مئی کو آنے والے ہیں تو اس سے قبل مودی کے خلاف محاذ کا قیام ضروری ہوگیا ہے ۔ اس اپوزیشن نے اگر انتخابات سے قبل خود کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہوتی تو نتائج پر اثر انداز ہونے میں مدد ملتی ۔ بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش شروع سے ہی مضبوط طور پر ہوتی تو اپوزیشن کو ہی حکومت بنانے کا موقع مل سکتا تھا ۔ تاہم چندرا بابو نائیڈو کی یہ کوشش اور اتحاد کے لیے کوششوں کا تسلسل برقرار رکھنا بھی ایک خوش آئند بات ہے ۔ مگر منزل تک پہونچنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا ۔ 23 مئی کی شب کے بعد ہندوستان کے سیاسی افق پر کونسا تارہ نمودار ہوگا یہ تو دیکھنے کے لیے ہر کوئی بے تاب ہے ۔ مرکز کی مودی حکومت نے اپنے گذشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں جمہوریت کی بساط کو الٹ کر رکھ دیا تھا ۔ اب اپوزیشن کے حلقوں نے حکومت کا بستر گول کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو معلق پارلیمنٹ کی صورت میں اپوزیشن کا متحدہ مظاہرہ ہی کام آئے گا ۔ بے شک اپوزیشن کے لیے یہ منزل اب زیادہ دور نہیں ہے ۔ مگر ان کا قابل عمل کام یہ ہونا چاہئیے کہ وہ حکومت سازی میں ناکام ہونے کے باوجود آپس میں متحد ہو کر حکومت کے سامنے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑے ہونے کا عہد کریں ۔ ایک مضبوط اپوزیشن ہی عوام کے امنگوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے والی ترجمان ہوتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے اندر مفاد پرستانہ مظاہرہ کرنے کی عادت کا ستم پایا جاتا ہے ۔ اس لیے ان کا اتحاد کمزور پڑ جاتا ہے ۔ اگر ان کے اندر کچھ تبدیلی لانے کا جذبہ ہے تو وہ مثالی اتحاد تک پہونچنے کا راستہ کہاں سے گذرتا ہے اس کو تلاش کریں ۔