اپوزیشن اتحاد کی پہل

ہر اک کو آرزو ہے قیادت وہی کرے
پھر اُس پہ اتحاد کی باتیں ہیں کیا کہیں
اپوزیشن اتحاد کی پہل
ملک میں آئندہ عام انتخابات کے سلسلہ میں اپوزیشن جماعتوں نے اپنی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ یہ تاثر ایک وقت تک بہت عام ہوگیا تھا کہ 2019 میں نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کو اقتدار ے بیدخل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اب بھی یہی تاثر ہے کہ اگر یہ کام نا ممکن نہیں تو بے انتہا مشکل ضرور ہے ۔ ایسے میں شائد اپوزیشن جماعتوں کو بھی صورتحال کا اندازہ ہونے لگا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اور خاص طور پر کانگریس پارٹی کی جانب سے این ڈی اے کی نریند رمودی حکومت کو بیدخل کرنے کی تیاریاں شروع ہوچکی ہے ۔ کانگریس کو ا س حقیقت کا اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ تنہا فی الحال بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ ملک کے عوام شائد اسے بی جے پی کا متبادل فی الحال سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اترپردیش جیسی ریاست میں جہاں بی جے پی نے عملا اپنا سکہ جما لیا ہے اپوزیشن اتحاد کی وجہ سے بی جے پی کو ہونے والی کراری شکستوں کا تجربہ بھی ان جماعتوں کے سامنے ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے مابین اتحاد کی پہل ہوگئی ہے ۔ خاص طور پر کانگریس نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ ملک کی مختلف ریاستوں میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ریاستی سطح پر اتحاد کرنے کو ترجیح دے گی ۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ وہ اترپردیش میں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد کریگی ۔ ان تینوں جماعتوں کے مابین اگر یو پی میں واقعتا کوئی اتحاد ہوجاتا ہے اور نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر بھی کوئی اختلاف نہیں ہوتا تو پھر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ملک کی سیاسی اعتبار سے انتہائی حساس اور اہمیت کی حامل اس ریاست میں بی جے پی کو کہیں پیچھے چھوڑا جاسکتا ہے ۔ اس ریاست سے لوک سبھا کیلئے 80 ارکان منتخب ہوتے ہیں اور ان میں بیشتر نشستوں پر بی جے پی ہی کا قبضہ ہے ۔ اگر یہاں بی جے پی کو روکنے میں کامیابی مل جاتی ہے تو پھر آئندہ حکومت تشکیل دینا نریندر مودی یا بی جے پی کیلئے آسان نہیں رہ جائیگا ۔ یہاں سے اپوزیشن کے اتحاد کو توقع سے زیادہ تقویت مل سکتی ہے ۔
یہی حال بہار اور مہاراشٹرا کا بھی ہے ۔ مہاراشٹرا میں اپوزیشن اتحاد کے امکانات فی الحال موہوم دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں این سی پی اور کانگریس کے مابین وہ ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے جس کی بی جے پی کو شکست دینے کیلئے ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ شرد پوار کی قیادت والی این سی پی کے منصوبے بھی ابھی پوری طرح کھل کر سامنے نہیں آئے ہیں۔ تاہم اگر یہا ںاین سی پی اور کانگریس کے مابین اتحاد ہوجاتا ہے اور دوسری علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو مقامی اہمیت کے اعتبار سے اس اتحاد کا حصہ بنالیا جاتا ہے تو پھر یہاں بھی اپوزیشن کیلئے مایوس کن صورتحال سے بچنا ممکن ہوسکتا ہے ۔ بہار میں اپوزیشن کیلئے صورتحال مثبت دکھائی دیتی ہے ۔ حالانکہ نتیش کمار اور امیت شاہ نے اپنی اپنی جماعتوں کے مابین اختلافات کو ختم کرنے کا ادعا کیا ہے لیکن یہ صورتحال فی الحال این ڈی اے کیلئے سازگار دکھائی نہیں دیتی ۔ بہار میں وقفہ وقفہ سے پیش آنے والے واقعات سے نتیش کمار کی امیج شخصی طور پر متاثر ہوئی ہے اور یہی این ڈی اے کیلئے سب سے مشکل کا باعث ہوسکتی ہے ۔ کانگریس کے اعتبار سے یہ تین ریاستیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور اگر یہاں بی جے پی کی تیز رفتار پیشرفت کو روکنے میں اپوزیشن جماعتیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو پھر آئندہ انتخابات کے نتائج بہت سوں کیلئے حیرت کا باعث ہوسکتے ہیں۔ خود بی جے پی کو ان نتائج پر یقین کرنا آسان نہیں رہ جائیگا ۔
کانگریس نے مدھیہ پردیش میں بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد کا اعلان کردیا ہے ۔ اور بنگال میں ممتابنرجی سے اس کی قربتیں بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔ یہاں ایسا لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی بائیں بازو کی جماعتوں کو چھوڑ کر ممتابنرجی کا ساتھ لینے کو ترجیح دے گی ۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں مدھیہ پردیش کے ساتھ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ان کے نتائج اگر کانگریس کے حق میں آتے ہیں تو پھر اس کو آئندہ انتخابات کیلئے نوشتہ دیوار بھی کہا جاسکتا ہے ۔ دوسری ریاستوں اور خاص طور پر جنوبی ہندوستان میں بی جے پی کا وجود سوائے کرناٹک کے کہیں اور مستحکم نہیںہے ۔ کیرالا ہو یا ٹاملناڈو ہو ‘ آندھرا پردیش ہو یا تلنگانہ ہو بی جے پی صرف ضابطہ کی تکمیل تک محدود ہے ۔ اپوزیشن کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے پہل کو آگے بڑھانے کیلئے اور بھی سنجیدگی کا مظاہر ہ کرنا ہوگا ۔ اسی وقت یہ اتحاد کامیاب ہوسکتا ہے ۔