اپوزیشن اتحاد پر اعتراضات

چمن پر بجلیاں منڈلا رہی ہیں
کہاں لے جاؤ شاخِ آشیانہ
اپوزیشن اتحاد پر اعتراضات
جیسے جیسے ملک میں آئندہ لوک سبھا انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے تمام تر سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کا سامنا کرنے کی تیاریوں کا آغاز ہوگیا ہے ۔ ہر جماعت کی جانب سے اپنی اپنی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ کوئی پارٹی عوام کو رجھانے کی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہے تو کوئی اتحاد کسی اور جماعت کو اپنے ساتھ ملانے اور عوام کے سامنے ایک اتحادی تصویر پیش کرنے کیلئے کوشاں ہے ۔ ہر جماعت نئے ماحول میں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ دوسری جماعتوں سے اتحاد کی کوششیں تو ہو رہی ہیں لیکن نشستوں کی تقسیم کا جہاں سوال پیدا ہوتا ہے ہر سیاسی جماعت کاذہن اور ہاتھ دونوں تنگ ہوجاتے ہیںاور دوسروں کو کم سے کم موقع دینا چاہتے ہیں۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل ہوسکیں تاکہ آئندہ حکومت سازی میں اس کا رول زیادہ اہمیت کا حامل ہوجائے اور وہ اس اہمیت کی وجہ سے اپنی طاقت کو منواسکے ۔ جہاں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یو پی اے اتحاد کو مستحکم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور جو جماعتیں اب تک یو پی اے میں شامل نہیں ہیں انہیں اس کا حصہ بنانے کی بات ہو رہی ہے ۔ کچھ جماعتیں کھلے عام اس کی تائید کر رہی ہیں تو کچھ اس تعلق سے پس و پیش کا شکار ہیں اور چند ایک جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے اس طرح کے اتحاد کی مخالفت بھی کی ہے تاہم جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے وہ اپوزیشن کی صفوںمیں اتحاد دیکھنا نہیں چاہتی اور اس پر مسلسل تنقیدیں اور اعتراضات کئے جار ہے ہیں۔ حالانکہ خود بی جے پی بھی این ڈی اے اتحاد رکھتی ہے اور اس میں یو پی اے اتحاد میں شامل جماعتوں سے زیادہ تعداد میں جماعتیں شامل ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی کے قائدین اورا س کے ذمہ داران تقریبا ہر روز اپوزیشن کے اتحاد کو تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہیں اور اسے موقع پرستوں کا اتحاد کہا جاتا ہے ۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان ساری جماعتوں کاایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح سے ملک میں نریندر مودی کو شکست سے دوچار کردیا جائے ۔ اس میں این ڈی اے کا کہیں تذکرہ نہیں کیا جاتا ۔ بی جے پی کے سبھی قائدین اور مرکزی وزرا تک اس طرح کے اتحاد پر تنقیدیں کرتے رہے ہیں ۔ اب تو خود وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس معاملہ میں میدان میں کود پڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عظیم اتحاد در اصل شخصیتوں کی بقا کیلئے کیا جا رہاہے ۔ یہ ایک طرح کی بھڑاس ہے کیونکہ اس میں کوئی حقیقت نہیںہے ۔ جہاں تک اپوزیشن کے اتحاد کی بات ہے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس اس کی قیادت کریگی تاہم کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے یہ واضح کردیا ہے کہ اپوزیشن کا کوئی وزارت عظمی امیدوار نہیں ہوگا اور انتخابات کے بعد نتائج کی بنیاد پر تمام جماعتیں مل بیٹھ کر اس تعلق سے فیصلہ کرینگی ۔ راہول گاندھی کے اس اعلان نے کئی دوسری جماعتوں کو یو پی اے کی صفوں میں شامل ہونے کا جذبہ فراہم کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہی صورتحال بی جے پی قائدین اور مودی کیلئے پریشان کن ہے ۔ یو پی اے میںکسی شخصیت پرستی کی فی الحال تو کوئی گنجائش نظر نہیں آتی جبکہ اس کے برعکس این ڈی اے میں یہ صورتحال واضح ہے اور وہاں صرف نریندرمودی کی شخصیت کو پیش کیا جاتا ہے اور آئندہ انتخابات کسی اور کیلئے نہ سہی لیکن نریندر مودی کیلئے شخصیت کی بقا کی لڑائی ضرور ہونگے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اندازہ خود بی جے پی قائدین کو بھی ہوگیا ہے ۔ بی جے پی قائدین کی جانب سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ملک میں صرف نریندر مودی واحد شخصیت ہیں جن کے خلاف یہ ساری اپوزیشن جماعتیں متحد ہو رہی ہیں۔ یہ بی جے پی قائدین کے وجود کی نفی کرنے کی کوشش ہے ۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے چند ریاستوں کے سوا تقریبا ہر ریاست میں بی جے پی نے کئی جماعتوں سے اتحاد کیا ہے ۔ اس کے ساتھ شامل جماعتوں کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود بی جے پی کے قائدین ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ساری بھڑاس اپوزیشن پر نکالنے پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ یہ ان قائدین کا دوہرا معیار ہے اور عوام کی آنکھوں میںدھول جھونکنے اور ان کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہے ۔ ملک کے عوام کو اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہو تاکہ وہ گمراہ ہونے نہ پائیں۔