اپنے حقوق سے عدم واقفیت

تاجرین کی لوٹ یا استحصال سے صارفین متاثر

کیا آپ اس بات سے آگاہ ہیں کہ کئی صارفین آپس میں مل کر دھوکہ دہی کرنے والی یا نامناسب خدمات فراہم کرنے والی تجارتی کمپنیوں کے خلاف اجتماعی شکایت درج کراسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شہر کی اکثریت صارف تحفظ ایکٹ 1926 کے اس دفعہ سے واقف ہی نہیں ہے۔ اگرچہ کہ سیکشن 12 (سی) کے تحت اس بات کی سہولت ہے کہ ایک صارف اگر کسی پروڈکٹ یا خدمت میں کمی یا نقص پاتا ہے تو اس نقض یا کمی سے متعلق لوگ متاثر ہیں تو ایسی صورت میں وہ تمام مل کر اس کمپنی کے خلاف اجتماعی شکایت درج کراسکتے ہیں۔ لیکن ماہرین اور وکلاء کے مشاہدے اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ اکثر صارفین کسی کمی یا نقص کی صورت میں تنہا شکایت درج کرانے کنزیومر فورم سے رجوع ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ماہرین مزید صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر کسی کمپنی کے ایک ہی پروڈکٹ یا خدمت کے تعلق سے متعدد لوگوں کو شکایتیں ہیں تو ایسی صورت میں ہر ایک صارف کو فرداً فرداً شکایت درج کرانے کے بجائے قانون میں موجود زمرہ جاتی کارروائی کا مقدمہ کرنا چاہئے۔ زمرہ جاتی کارروائی کا مقدمہ صارفین کو ایسی قانونی سہولت فراہم کرتا ہے کہ جس کے تحت لوگوں کا ایک گروپ ایک جیسی شکایت ہونے کے صورت میں کمپنی کے خلاف اجتماعی شکایت درج کراسکتے ہیں اور اس شکایت کے ضمن میں جو بھی فیصلہ آئے گا اس کا اطلاق اس کے پروڈکٹ یا خدمت سے متاثر تمام صارفین پر ہوگا۔ اے وینکا شیشور ریڈی کے مطابق کمپنیاں جو صارفین سے دھوکہ دہی میں ماہر ہیں وہ صرف ایک یا دو صارف سے دھوکہ دہی نہیں کرتے ہیں۔ اس سے ان کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کے دھوکہ دہی کی فہرست سینکڑوں میں ہے لیکن زمرہ جاتی کارروائی کا مقدمہ کی سہولت کے تعلق سے شہر میں بڑے پیمانے پر استعمال سے واقف نہیں ہے۔ ریڈی نے مزید کہاکہ ایکسپریس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جوکہ حیدرآباد کے تین اضلاع کے فرموں کے 35 فیصلوں پر مبنی ہے اور آن لائن بھی موجود ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ان فرموں کے فیصلوں میں ایک بھی معاملہ ایسا نہیں ہے جو زمرہ جاتی کارروائی کے مقدمے کے تحت درج کرایا گیا ہے۔ لیکن اس پورے معاملے میں سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ (کلاس ایکشن سوٹ) زمرہ جاتی کارروائی کا مقدمہ کیوں اہم ہے؟ تو اس ضمن میں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ صارفین کے حقوق کو تقویت دیتا ہے اور اس میں اس بات کی صراحت شامل ہے کہ اس خدمت یا پروڈکٹ سے بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ نیز ساتھ ہی اگر ایسا کیا جائے تو اس سے فورم یا کمیشن کے وقت کو ضیاع سے بچایا جاسکتا ہے اور ایک ہی شکایت کو فرداً فرداً سننے کے بجائے کمیشن اجتماعی طور پر دیکھ کر اپنا فیصلہ جلد از جلد صادر کرسکتا ہے۔ اب اس میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگر صارف فورم نے ایک زمرہ جاتی کارروائی کے مقدمے کلاس ایکشن سوٹ) کو قبول کرتے ہوئے اس پر کوئی فیصلہ سنایا ہے تو اس فیصلے سے مستفید ہونے والے لوگوں کی فہرست میں کسی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ مزید آسان لفظوں میں یہ کہ اگر صارف کی حیثیت سے کسی کمپنی کی خدمت یا پروڈکٹ میں نقص سے آپ بھی متاثر ہیں اور اس معاملے میں فورم نے کلاس ایکشن سوٹ (زمرہ جاتی کارروائی کا مقدمہ) کے تحت کوئی فیصلہ صادر کیا ہے تو اس سے آپ بھی مستفید ہوں گے اگرچہ کہ آپ عدالت نہیں گئے اور کوئی شکایت بھی اس سے قبل درج نہیں کرائی تھی۔ تاہم بات دراصل یہ ہے کہ اس قسم کے فوائد سے صارفین کی اکثریت آگاہ نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ کافی اہمیت کا حامل ہے لیکن اس طرح کے سود مند قوانین اور دفعات و قانونی سہولیات کے لئے عوام الناس میں بیداری پیدا کرنے کی ذمہ داری بڑے پیمانے پر صرف وکلاء کے کندھوں پر ہے۔ حقوق کے تحفظ کی تنظیمیں اس میں تھوڑا سا تعاون کررہی ہیں لیکن وہ ناکافی ہے۔ صارفین کی فلاح و بہبود کی 200 سو اسوسی ایشنس تلنگانہ میں اس وقت کام کررہی ہیں اور جو اس بات کی اہلیت رکھتی ہیں کہ صارفین کی کسی بھی شکایت کے معاملے کو لے کر اس پر بحث کرسکتی ہیں۔ لیکن ان میں کی اکثریت ایسے قانون کے تعلق سے بیداری لانے کے لئے بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ اور وہ ایسا نہ کرنے کے ضمن میں یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے انھیں کسی بھی قسم کا تعاون یا حوصلہ نہیں مل رہا ہے۔ آل تلنگانہ کنزیومر آرگنائزیشن فیڈریشن کے چیرمین وی گوری سنکارا راؤ کے مطابق اسوسی ایشن بجائے زمینی سطح پر صارفین کے درمیان حقوق اور قوانین کے تعلق سے بیداری پھیلانے کے صارفین کے مقدمے کو بھی لے کر اس پر بحث و تکرار کرسکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے کئی تنظیموں نے اپنے آپ کو صرف صارفین کے صلاح و مشورہ تک ہی محدود کرلیا ہے کیوں کہ اس ضمن میں نہ تو ایوارڈ کی شکل میں ان کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور نا ہی کسی مالی تعاون سے انھیں نوازہ جارہا ہے۔ ریاستی اُمور صارفین کے آفس کے مطابق رجسٹر صارفین اسوسی ایشن کو صارفین کی فلاح و بہبود کے لئے بجٹ کی فراہمی کے لئے ابھی قانون سازی کی جارہی ہے۔ ریاست کے وجود میں آنے کے بعد سے ابھی تک صارفین کے لئے کام کرنے والی تنظیموں و انجمنوں کو کسی بھی قسم کی کوئی بھی مالی تعاون نہیں کی گئی ہے۔ یہ تو ہوئی بات تنظیموں اور انجمنوں کے ذریعہ صارفین کے درمیان بے داری پیدا کرنے کی اور صارفین کے لئے موجود قانون کی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم بذات خود ایک صارف کی حیثیت سے صارف حقوق کے تحفظ کے لئے کتنا حساس ہیں؟ ہمیں لگتا ہے کچھ بھی نہیں۔ اگر ہم قومی صارف ہیلپ لائن کے اعداد وشمار کی بات کریں تو اس کے ذریعہ تصدیق شدہ ڈاٹا کے مطابق 2014 ء میں ریاست کی تشکیل کے بعد سے اب تک جو کال موصول ہوئیں ہیں ان میں صرف 2 فیصد کالس ہی ایسی ہیں جن میں صارف نے کسی پروڈکٹ یا خدمت یا کسی دھوکہ دہی کے تعلق سے اطلاع فراہم کی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یا تو ریاست میں صارفین جو بھی چیز خریدتے ہیں اس سے وہ سو فیصد مطمئن ہیں یا پھر ان کو پریشانیاں اور اشکال تو ہیں لیکن اس کے لئے کیا اقدام کئے جائیں اس سے وہ واقف نہیں ہیں۔ موصول ڈاٹا کے مطابق ایف سی ایچ نے فروری کے مہینے میں کل 848 صارفین کی شکایت والی کال درج کی ہیں اور اس ڈاٹا کے اعتبار سے صارفین کی شکایت کے معاملے میں ریاستوں کی درجہ بندی میں تلنگانہ تیرہویں مقام پر ہے۔ اس فہرست میں اترپردیش اور دہلی اول مقام پر ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ریاست تلنگانہ اسٹیٹ کنزیومر پروٹیکشن کونسل یا ڈسٹرکٹ کنزیومر پروٹیکشن کونسل کی ابھی تک تشکیل نہیں ہوئی ہے تاکہ چھوٹے پیمانے پر ہی صارف کے مسائل کو حل کیا جاسکے۔ وکلاء اور صارفین کی انجمنوں نے یہ نقطہ پیش کیا ہے کہ مناسب انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے مقامی سطح پر نئے قومی کمیشن بنچ کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ وی گوری سنکارا راؤ کے مطابق اگر ریاست اور شہری صارفین کے حقوق کے تحفظ کے تئیں سنجیدہ ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ نیشنل کمیشن بنچ کے قیام کے لئے ہم بڑے پیمانے پر آواز بلند کریں۔ آندھراپردیش نے پہلے ہی اس کے لئے گرانٹ کی مانگ شروع کردی ہے۔ ستمبر 2015 ء میں ریاستی صارفین ہیلپ لائن کے قیام کے بعد سے اشکال و نقص کی شکایتوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ نیز موجودہ 12 اضلاع میں سے ریاستی اُمور صارفین کو 9 اضلاع سے دو نئے فورم کے قیام کی تجویز موصول ہوئی ہے۔