سرینگر ۔27ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) دہشت گردوں کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنی جڑوں سے وابستہ 78سالہ رام جی کول کے انتقال پر جو کشمیری پنڈت تھا اور ایک دیہات کا عمررسیدہ آدمی تھا جو بچوں کو آخری رسومات کی ادائیگی میں بھی مدد کیا کرتا تھا ‘ اس کے پڑوسی وادی کشمیر کے مسلمانوں نے نہ صرف اس کے انتقال پر سوگ منایا بلکہ کہا کہ مسلم اکثریتی اور ہندو اقلیتی آبادی والی ریاست جموں و کشمیر میں کشمیریت ایک ایسا بندھن ہے جو مذہب ملت سے بالاتر ہے ۔ اس کا مظاہرہ ضلع پولواما کے علاقہ وائیبگ میں کول کی موت پر دیکھا گیا ۔ کول نے وادی کشمیر سے ہجرت نہیں کی تھی حالانکہ عسکریت پسندی کے آغاز سے اُسے دھمکیاں دی جارہی تھی ۔ علاقہ کے ایک ہزار خاندانوں نے اس کی موت کا سوگ منایا ۔ کول محکمہ برقی پیداوار میں ملازم تھا اور 1999ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوا تھا ۔ اس نے جمعہ کی دوپہر آخری سانس لی ۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار تھا ‘ اس کی بیٹی اور داماد ونود اس کے انتقال کے وقت اس کے پاس موجود تھے ۔ گاؤں کے سرپنچ غلام نبی ‘ نثار احمد اور محمد اکبر زاروقطار رو رہے تھے جیسے کہ ان کا ہی کوئی رکن خاندان انتقال کرگیا ہو ۔