کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت اس قوم کی پہچان ہوتی ہے، اگر وہ اپنی تہذیب سے منھ موڑ کر اغیار کی ثقافت پر عمل پیرا ہوجائے تو اس قوم کی پہچان مٹ جاتی ہے۔ آج مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت اور اخلاق و کردار کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کے پیچھے آنکھ بند کر کے چلا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جن رسموں کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے ان میں سے ایک رسم ’’اپریل فول‘‘ کی بھی ہے جس نے مسلم قوم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔’’اپریل فول ‘‘ کے حرام و ناجائز ہونے میں کسی مسلمان کو ذرہ برا بر تذبذب کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔اس لئے کہ اس میں جن باتوں کا ارتکاب کیا جاتاہے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہیں۔ جیسے جھوٹ، دھوکا، گندہ مذاق، تمسخر، و عدہ خلافی، مکر و فریب ، بددیانتی اور امانت میں خیانت وغیرہ۔ یہ سب مذکورہ ا مور فرمانِ الٰہی اورفرمانِ رسول کی روشنی میں ناجائز اور حرام ہیں۔ خلاف مروت، خلاف تہذیب اور ہندوستان کے سماج و معاشرے کے خلاف ہیں۔’’اپریل فول‘‘ ماہ اپریل کی پہلی تاریخ کو جھوٹ بول کر اور دھوکا دے کر ایک دوسرے کو بے و قوف بنایا جاتا ہے۔اردو کی مشہور لغت’’نور اللغات‘‘ میں اپریل فول کے تعلق سے مصنف مولوی نور الحسن نیرؔ لکھتے ہیں۔’’اپریل فول انگلش کا اسم ہے ۔اس میں اپریل فول کا معنی احمق ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں میں یہ دستور ہے کہ پہلی اپریل میں خلاف قیاس دوستوں کے نام مذاقاً بیرنگ خط، خالی لفافے یا خالی لفافے میں دل لگی چیزیں رکھ کر بھیجتے ہیں۔ اخباروں میں خلاف قیاس (جھوٹی) خبریں چھاپی جاتی ہیں۔جو لوگ ایسے خطوط لے لیتے ہیں یا اس قسم کی خبر کو معتبر سمجھ لیتے ہیں وہ اپریل فول (بے وقوف ) قرار پاتے ہیں۔اب ہندوستان میں اس کا رواج ہو گیا ہے اوران ہی باتوں کو اپریل فول کہتے ہیں۔‘‘(نو راللغات جلد اول ، صفحہ ۲۴۱)