آلیر فرضی انکاؤنٹر سے ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں میں احساس عدم تحفظ

حیدرآباد 24 اپریل (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ گجرات کی راہ پر گامزن ہے۔ ریاست میں مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ آلیر میں 7 اپریل کو پیش آیا فرضی انکاؤنٹر واقعہ صرف 5 مسلم نوجوانوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں میں احساس عدم تحفظ پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ جناب ابو عاصم اعظمی صدر سماج وادی پارٹی (مہاراشٹرا) و رکن اسمبلی نے آج حیدرآباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔ اُنھوں نے 5 نوجوانوں کی موت کو حکومت کی نگرانی میں پولیس کے ذریعہ کیا گیا سفاکانہ قتل قرار دیتے ہوئے کہاکہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی بی جے پی سے قربت اختیار کررہی ہے اسی لئے حکومت کے عہدیداروں پر معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لئے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اِسی لئے 5 اموات کا مقدمہ ریاست کے باہر مہاراشٹرا میں چلایا جانا چاہئے اور اِس کے لئے خصوصی پبلک پراسکیوٹر نامزد کیا جانا چاہئے۔ اِس پریس کانفرنس کے موقع پر قائد مجلس بچاؤ تحریک جناب امجد اللہ خان خالد، جناب عبدالقادر چودھری ترجمان سماج وادی پارٹی مہاراشٹرا، مسٹر جگدیش یادو ریاست صدر سماج وادی پارٹی تلنگانہ و آندھراپردیش کے علاوہ دیگر قائدین موجود تھے۔ ابو عاصم اعظمی نے بتایا کہ حکومت اور پولیس حقائق کو چھپاتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اُنھوں نے برہمی کے عالم میں کہاکہ جب انصاف رسانی کے عمل کو دشوارکن بناتے ہوئے ملزمین کو ہلاک ہی کیا جانا ہے تو ایسی صورت میں عدالتوں کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ جناب ابو عاصم اعظمی نے مطالبہ کیاکہ تمام 17 پولیس اہلکاروں کو فوری معطل کرتے ہوئے عدالتی تحقیقات کا اعلان کیا جائے اور مرحومین کے پسماندگان کے فی کس 15 لاکھ روپئے کے علاوہ سرکاری ملازمت فراہم کرنے کا اعلان کیا جائے۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ اِن مطالبات کے متعلق چیف منسٹر کو 10 دن کی مہلت فراہم کرتے ہوئے مکتوب روانہ کریں گے اور 10 دن میں مطالبات کی عدم تکمیل کی صورت میں حیدرآباد میں مہا دھرنا منعقد کیا جائے گا جس میں انصاف کے لئے جدوجہد کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کو مدعو کیا جائے گا۔ اُنھوں نے بتایا کہ اِس دھرنا میں سماج وادی پارٹی قومی قائدین کو مدعو کرنے کے متعلق غور کرے گی۔ اُنھوں نے کہاکہ پولیس جس واقعہ کو انکاؤنٹر کا نام دے رہی ہے اُن کی تصاویر کا مشاہدہ کرنے کے بعد اِس میں مزید کسی تحقیقات کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی اور یہ نوجوان عدالتی تحویل میں تھے اِسی لئے ملک کی عدالت عظمیٰ کو فوری طور پر ازخود کارروائی کرنی چاہئے تھی۔ جناب ابو عاصم اعظمی نے اِس واقعہ سے قبل پیش آئے 2 مبینہ سیمی کارکنوں کی ہلاکت کو بھی مشتبہ قرار دیا۔ ملک میں ہندو راشٹرا، گھر واپسی کے علاوہ لو جہاد جیسے نعروں کی ناکامی کے بعد حکومت تلنگانہ کو گجرات کی طرح تجربہ گاہ بنانے کی سازش کررہی ہے۔ جناب ابو عاصم اعظمی نے کہاکہ اُنھیں حیدرآباد سے باہر رہنے تک ایسا محسوس ہورہا تھا کہ حیدرآباد میں مضبوط قیادت کے سبب مسلمان محفوظ ترین ہوں گے لیکن آج متوفی نوجوانوں کے افراد خاندان سے ملاقات کرنے کے بعد اِس بات کا احساس ہوا ہے کہ ریاست کے باہر کئے جانے والے دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اُنھوں نے مجلس سے مطالبہ کیاکہ مجلس فوری طور پر تلنگانہ راشٹرا سمیتی سے اپنے تعلقات منقطع کرتے ہوئے مظلوم نوجوانوں کے لئے جدوجہد کا اعلان کرے یا پھر اُن کی جانب سے 10 یوم بعد شروع ہونے والی جدوجہد کا حصہ بنیں۔ جناب ابو عاصم اعظمی نے حکومت تلنگانہ کے وزیر و عہدیداروں اور چیف منسٹر مہاراشٹرا کے دورہ اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ زراعت کے نام پر مسلمانوں کو ہراسانی کے طریقے اسرائیل سے سیکھے جارہے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ 7 اپریل کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے حکومت نے جو اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تیار کی ہے اُسے مسلم تنظیموں و جماعتوں نے مسترد کردیا ہے۔ جناب ابو عاصم اعظمی نے کہاکہ ملک کے سیکولر ڈھانچے کے تحفظ کے لئے انصاف دلوایا جانا ضروری ہے۔ عدالت سے رجوع ہونے کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ابو عاصم اعظمی نے کہاکہ غیر سرکاری تنظیمیں عدالتوں سے رجوع ہوتے ہوئے انصاف مانگتی ہیں جبکہ سیاسی تنظیمیں سڑکوں پر جدوجہد کرتے ہوئے حکومت کو انصاف فراہم کرنے کے لئے مجبور کرتی ہیں اِسی لئے وہ مہا دھرنا منظم کرتے ہوئے تمام انصاف پسند سیاسی جماعتوں، تنظیموں کے قائدین کو مدعو کریں گے تاکہ مظلوموں کو انصاف کے حصول کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالا جاسکے۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ سماج وادی پارٹی کی مرکزی قیادت سے مشاورت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں اِس مسئلہ کو اُٹھانے کے لئے خواہش کریں گے۔ اُنھوں نے حکومت کی جانب سے حقائق سے آگہی کے لئے وزراء کو مہلوکین کے مکانات روانہ نہ کئے جانے پر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ پہلی مرتبہ ایسا دیکھ رہے ہیں۔ جناب امجد اللہ خان خالد نے اِس موقع پر ذرائع ابلاغ کی جانب سے وقار، ذاکر، امجد، اظہار اور ڈاکٹر حنیف کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ بلا تحقیق خبروں کے ذریعہ عوام میں غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں اِسی لئے ذرائع ابلاغ اداروں کو چاہئے کہ وہ تحقیق کے بعد اِس بات کا فیصلہ کریں چونکہ عدالت میں اِن نوجوانوں کا مقدمہ زیردوران تھا اور اِس مقدمہ میں جملہ 35 گواہان تھے جس میں 30 گواہان اپنے بیان سے منحرف ہوچکے تھے جس سے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اِن نوجوانوں کو مقدمہ میں عدالت سے برات حاصل ہوجائے گی۔ مسٹر جگدیش یادو ریاستی صدر سماج وادی پارٹی نے بھی 7 اپریل کو پیش آئے آلیر انکاؤنٹر واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ سیاست سے بالاتر ہوکر انصاف پسند تنظیموں و جماعتوں کو حکومت کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے۔ چونکہ اِس طرح کے واقعات پر خاموشی اختیار کئے جانے کی صورت میں پولیس کے مظالم میں اضافہ ہوسکتا ہے۔