آلیر فرضی انکاؤنٹر‘ کے سی آر کی مسلم دوست شبیہ متاثر

حیدرآباد ۔ 3 ؍ مئی (سیاست نیوز) کے چندر شیکھرراؤ کی حکومت کو مسلمانوں کی ہمدرد سمجھا جا رہا تھا ‘ علحدہ تلنگانہ میں بڑھ چڑھکر حصہ لینے کے بعد ریاست کے مسلمانوں کو امید تھی کہ نئی ریاست میں ان کے ساتھ انصاف کیا جائیگا ۔ ان کے مفادات ان کی جان و مال کی حفاظت کی جائیگی ۔ تحریک تلنگانہ کے موقع پر کے سی آر نے بار بار مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار (ملازمتوں ) میں 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کا وعدہ کیا ۔ لیکن ان کے اکثر و بیشتر وعدے وفا نہ ہوسکے بلکہ ریاست میں ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم نوجوانوں کو ان کی زندگیوں سے محروم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیاگیا ہے ۔ آلیر اونکاؤنٹر اس کی بدترین مثال ہے ۔ مسلم تنظیموں اور حقوق انسانی کے جانباز جہد کاروں کے ساتھ ساتھ بلالحاظ مذہب و ملت انصاف پسند عوام نے ورنگل کی جیل سے حیدرآباد کی ایک عدالت لائے جانے کے دوران آلیر میں وقار احمد ‘ محمد ذاکر ‘ ڈاکٹر حنیف ‘ اعجاز خان ‘ اور امجد انکاؤنٹر کو فرضی انکاؤنٹر اور سفاکانہ قتلوں سے تعبیر کیا ۔ حقوق انسان کے جہد کاروں سے لیکر شہید نوجوانوں کے والدین اور مسلم جماعتوں نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی بجائے اس بہیمانہ واقعہ کی سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن مسلمانوں کی ہمدردی کا دم بھرنے والے کے چندرشیکھرراؤ نے سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ مسترد کر دیا ۔ شائد انہیں اس بات کی غلط فہمی ہوگئی ہے کہ ریاست خاص کر حیدرآباد کے مسلمان ایسے واقعات کو جلد فراموش کر دیتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ آج سے زائد 7 برس قبل ضلع عادل آباد کے بھینسہ سے قریب ایک چھوٹے گاؤں وٹولی میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد بشمول 3 کمسن بچوں کو زندہ جلا دیا گیا ۔ اس وقت کانگریس کی ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھرریڈی حکومت اپنے عروج پر تھی ۔ وائی ایس آر کے ساتھ کوئی زبان نہیں کھول سکتا تھا لیکن وٹولی کے واقعہ کے بعد عادل آباد میں کانگریس کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھرریڈی نے وٹولی میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد کے بہیمانہ قتل کی سی بی آئی تحقیقات کا حکم دیا تھا اس ضمن میں جی او نمبر 211 بابتہ 16-10-2008 بھی جاری کر دیا تھا ۔لیکن سی بی آئی شائد آج تک اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے حرکت میں نہیں آئی ۔ افسوس تو اس بات ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کا دم بھرنے والوں کی زبانیں بھی بند ہوگئیں ۔ شہر میں سرگرم انسانی حقوق کی ایک جہد کار نے زیر دریافت قیدیوں کے پولیس کے ہاتھوں سفاکانہ قتل پر مسلم سیاستدانوں کی خاموش پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے مفادات کے لئے حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتے ہیں لیکن مظلوم مسلمانوں کو انصاف دلانے کا وقت آیا تو ان کے قدم آگے نہیں بڑھتے ۔ مکہ مسجد بم دھماکے اور پھر اس کے فوری بعد پولیس فائرنگ میں تقریباً 16 مسلمان مارے گئے اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنایا گیا جس نے فریقین کی سماعت بھی کی ۔ 18 مئی 2007 کو پیش آئے اس واقعہ کے ضمن میں جو کمیشن بنایا گیا اس کی رپورٹ آج تک پیش نہیں کی گئی ۔ اس پر بھی قیادت کا دعویٰ کرنے والوں نے کوئی احتجاج کیا اور نہ ہی حکومت پر دباو ڈالا اس طرح وٹولی میں قتل کر کے جلائے گئے مسلمانوں سے اب تک انصاف نہیں کیا گیا ۔ سی بی آئی تحقیقات کا کیا ہوا ؟۔ شائد ہمارے قائدین بھول بھی گئے ہوں گے لیکن عوام کے ذہنوں میں وہ دالخراش واقعہ ہنوز تازہ ہے ۔ آج بھی ہمارے ذہنوں میں اس غریب 55 سالہ محبوب خان کے خاندان کی بکھری پڑی نعشوں کا منظر گھومتا ہے جس کی نعش پر سیاسی سودے بازی کرنے والوں نے جم کر سیاست کی ۔ آج بھی ریاست کے مسلمان 50 سالہ صفیہ خاتون کی جلی ہوئی نعش کو نہیں بھول پائے ‘ جو اپنی 22 سالہ جوان بیٹی رضوانہ بیگم کی نعش کے بازو پڑی ہوئی تھی ۔ میڈیا رپورٹس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ رضوانہ بیگم کے منہ میں کپڑا ٹھوس کر ملت کی اس بیٹی کا منہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ریاست کے مسلمان ‘ 6 سالہ ارسلان خان ‘ 3 سالہ نعمان خان ‘ اور 2 سالہ صباحت خان کی جھلسی ہوئی ناقابل شناخت نعشوں اور ان پر ڈھائے گئے مظالم کو بھول جائیں گے تو وہ ان کی نادانی ہوگی ۔ ریاست کے مسلمانوں کو محبوب خان کا کٹا ہوا وہ پاوں بھی یاد ہے جو ان کے مکمل طور خاکستر گھر سے بہت دور پایاگیا تھا ۔ ریاست کے مسلمان اس بات کو بھی فراموش نہیں کرسکے کہ فرقہ پرست درندوں نے ہندوستان کے اس سپاہی انور خان کے گھر کو اُس وقت تباہ و برباد کر ڈالا جب وہ بہادر سپاہی اپنے وطن کی حفاظت کے لئے سینہ تانے سرحد پر اس گھڑی کا انتظار کر رہا تھا کہ کوئی گولی آئے اور اس کے سینے سے آر پار ہوجائے اس طرح اسے اپنے ملک کی اور اس کے باشندوں کی حفاظت کیلئے جان قربان کرنے کا اعزاز حاصل ہو ۔ سیاسی قائدین اور مفادات حاصلہ کی خاموشی سے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ آلیر قتل کیس کی سی بی آئی تحقیقات کے مطالبہ کو نام نہاد ہمدردان ملت اس طرح اپنے دفتر کے کوڑے دان کی نذر کر کر دیں گے جس طرح مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر کوڑہ دانوں کی نذر کر دیا ۔ آلیر میں وقار احمد ‘ ڈاکٹر حنیف ‘ محمد ذاکر ‘ سید امجد علی اور اعجاز خان کے انکاؤنٹر پر عام مسلمانوں سے لیکر زعمائے ملت انصاف پسند برادران وطن ‘ سیول لبرٹیز مانیٹرنگ کمیٹی ایس یو سی ایل ‘ تلنگانہ فورم فار جسٹس ‘ سیول لبرٹیز کمیٹی اور مشترکہ مجلس عمل نے تحقیقات ذہنی کا اظہار کرتے ہوئے صاف طور پر ایسے پولیس کے ہاتھوں زیر دریافت مسلم قیدیوں کا سفاکانہ قتل قرار دیا ۔ بعض نے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے رچی گئی ایک سازش سے تعبیر کیا لیکن تمام اس بات سے صد فیصد متفق ہیں کہ یہ قتل اور صرف قتل ہے اور قاتلوں کو سزا دلانا ضروری ہے ورنہ پولیس کسی بھی مسلم نوجوان کو گولی مار کر اسے اکاؤنٹر کا نام دینے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گی ۔ ملک و بیرون قیادت کی خاموشی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ ممبئی سے ابو عاصم اعظمی ایم ایل اے ‘ حیدرآباد آ کر شہداء کے لواحقین کی امداد کر جاتے ہیں لیکن ہمارے قائدین ملت کو توفیق نہیں ہوتی کہ وہ ان غریب نوجوانوں کے بوڑھے ماں باب سے ملاقات کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہمدردی کے دو الفاظ کہنے کی زحمت کریں ۔ ملت کی قیادت کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس ڈاکٹر حنیف کے ان معصوم بچوں کے سروں پر شفقت سے ہاتھ رکھنے کا وقت نہیں جو رات دن اپنے ابا کو یاد کرتے ہوئے آنسو بہا رہے ہیں ۔ یہ معصوم اپنی ماں اور رشتہ داروں سے دریافت کر رہے ہیں کہ ہمارے اب تو سب کا علاج کرتے تھے ۔ لوگوں کو اچھی باتیں بتاتے پھر پولیس نے انہیں قتل کیوں کیا ۔ کیا پولیس والے انسان نہیں ہیں ؟ جو اچھے اور نیک انسانوں کو بھی موت کے نیند سلا دیتے ہیں ۔ یہ معصوم اپنی ماں اور دیگر رشتہ داروں سے یہ بھی سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا پولیس والے صرف مسلمانوں کے دشمن ہوتے ہیں ؟ ان بچوں کو کیا معلوم کہ تمام پولیس برے نہیں ہوتے ان میں بھی انسان ہوتے ہیں ۔ ہاں چند ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنی ترقی میڈلس انسانوں کی جان سے پیارے ہوتے ہیں ، کاش ڈاکٹر حنیف کے بچوں کی آہیں ان کی دعائیں ہماری قیادت اور چیف منسٹر کے سی آر کی سماعت سے ٹکراتی تو اندازہ ہوتا کہ باپ سے بچھڑنا اولاد کے لئے کس قدر بڑا صدمہ ہے اور ایک ایسی عمر میں جبکہ بچوں کو ہوش ہی نہیں باپ کا سایہ ان کے سروں سے اٹھ جانا صدمہ جانکاہ سے کم نہیں ۔ چیف منسٹر کے سی آر کو کم از کم انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی بی آئی تحقیقات کا حکم دینا چاہئے ۔ اس کے لئے انہیں چاپلوسوں اور مفاد پرست ٹولے کے گہرے سے باہر نکلنا ہوگا یہ ایسا ٹولہ ہے جو انہیں ’’مہاتما‘‘ بنانے پر تلا ہوا ہے ۔ ہندوستانیوں نے تو صرف ایک مہاتما مہاتما گاندھی کے بارے میں پڑھا اور سنا ہے جنہیں ملک کے پہلے دہشت گرد ناتھورام گوڑے نے اس طرح گولیاں مار دیں تھیں جس طرح گجرات لیکر مہاراشٹرا اور تلنگانہ سے لیکر اترپردیش میں بے قصور انسانوں کو پولیس انکاؤنٹر کے گولیاں مار رہی ہے ۔ مسلمان کے سی آر کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں انہیں مسلمانوں میں بگڑی ہوئی شبیہہ بہتر بنانے کیلئے آلیر فرضی انکاونٹر کی سی بی آئی تحقیقات کا حکم دینا چاہئے ۔