پاکستان کی سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ہی اقتصادی صورتحال آنے والی حکومت کے لئے سخت آزمائش کی کیفیت پیدا کردے گی ۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے اس حقیقت کی جانب نشاندہی کی کہ ملک کی مالیاتی صورتحال نازک ہے ایسے میں مالی امداد کا ملنا ضروری ہے ۔ ان حالات میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے راحت مل جاتی ہے تو یہی ایک واحد امکانی راستہ ہے لیکن آئندہ چند روز میں پاکستان کی نئی حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی اور نظم و نسق چلانے کے لئے بروقت رقومات کی ضرورت ہوگی ۔ نئے وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان ایک ایسے وقت اقتدار سنبھا لیں گے جب پاکستان کئی محاذوں پر جدوجہد کرتا نظر آ رہا ہے ۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے پٹرولیم اشیاء کی درآمدات کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس ملک کے پاس صرف 4 بلین ڈالر کی بیرونی رقم ہے جو درآمدات کی ادائیگیوں کے لئے ناکافی ہے ۔
پاکستان کی اس صورتحال کو مدنظر رکھ کر اگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ و دیگر بڑی معاشی طاقتوں کے دباؤ میں آ کر پاکستان کو راحت فراہم کرنے سے اپنا ہاتھ کھینچ لے گا تو نئی حکومت کو کام کاج کرنے میں دشواریاں ہوں گی ۔ امریکہ نے آئی ایم ایف کو خبردار کیا کہ وہ پاکستان کی نئی حکومت کے لئے کوئی تازہ راحت کافیصلہ نہ کرے ۔ پاکستان کو چینی قرض دہندگان کو رقم ادا کرنی ہے جنہوں نے چین ۔ پاکستان معاشی راہداری میں سرمایہ کاری کی ہے ۔جب عالمی ادارہ پرکسی گوشے سے دباؤ ڈالا جاتا ہے تو صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش متصور ہوگی ۔ اور اس وقت پاکستان کسی بڑی طاقت کے من مانی رویہ کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہے ۔ عالمی سطح پر آئی ایم ایف کی کارکردگی کا جائزہ لینے والے امریکہ نے ابھی سے ہی پاکستان کو پریشان کرنا شروع کردیا ہے ۔ پاکستان نے اپنی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع ہونے پر غور کرنا بھی شروع کیا تھا کہ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پمپیو کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ آئی ایم ایف کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کو مالیاتی راحت دینے سے گریز کر ے ۔
پاکستان نے آئی ایم ایف سے 12 بلین ڈالر کے امدادی پیاکیج کے لئے رجوع ہونے کا منصوبہ تیار کیا ہے لیکن اس سے پہلے ہی امریکی مداخلت نے مالیاتی راحتوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے ۔ امریکی وزیر کا یہ استدلال بھی عجیب ہے کہ آئی ایم ایف کے ٹیکس اور آئی ایم ایف فنڈنگ کے اس حصہ کو ان ملکوں کے لئے جاری کی جائے جو چین کے باؤنڈ ہولڈرس یا خود چین کو راحت دینے میں مدد کرتے ہیں ۔ امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ کا غصہ پاکستان پر اتارنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے ۔ اگرچیکہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ جیسے ادارہ کو غیر جانبداری سے کام کرنے کی اجازت حاصل ہے مگر اس پر امریکی دباؤ زیادہ ہے ۔ فی الحال آئی ایم ایف تک پاکستان کی امداد کی درخواست پہونچی نہیں ہے ۔ اس سے پہلے ہی رقومات یا راحت پیاکیج نہ دینے کے لئے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے ایسے دباؤ والے حربے کسی ضرورت مند ملک کو پریشانی سے دو چار کرسکتے ہیں ۔ پاکستان ماضی میں بھی رقمی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے 1980 سے آئی ایم ایف کے 14مالیاتی پروگراموں سے استفادہ کرتا آ رہا ہے ۔ اس مرتبہ اسے مالیاتی امداد سے روکتے ہوئے اپنی برتری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو یہ آئی ایم ایف کے اصولوں کے مغائر ہوگا ۔ پاکستان کو آئندہ چند ماہ میں 3 بلین امریکی ڈالرکی ضرورت پڑے گی ۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی سے گریز کرنے کے لئے مذکورہ رقم کی راحت دی جانی ضروری ہوگی اگر راحت نہ ملے تو چین اور عالمی بینک سے حاصل کردہ قرضوں کی ادائیگی کس طرح ہوگی یہ تشویشناک صورتحال ہوجائے گی ۔ پاکستان نے اس وقت چین سے 5 بلین ڈالر کی رقم قرض لے رکھی ہے جس میں سے زیادہ تر انفراسٹرکچر پروڈکشن پر صرف کی گئی ۔ بہرحال پاکستان کی آنے والی حکومت کو اپنے ملک کی اقتصادی صورتحال سے نمٹنے کے لئے متبادل ذرائع اور وسائل کو متحرک کرنے پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔