اولیائے طلبہ تشویش کا شکار، حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی کی معنی خیز خاموشی
حیدرآباد 15 جنوری (سیاست نیوز) خانگی اسکولوں میں فیس کی ادائیگی کے مسائل اور اسکول انتظامیہ کی جانب سے فیس میں کئے جانے والے بتدریج اضافہ سے اولیائے طلبہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکومت نے سابق میں خانگی اسکولوں میں فیس کے تعین کے سلسلہ میں ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا تھا جس نے خانگی اسکولوں کی فیس کا تعین کرتے ہوئے حد مقرر کی تھی لیکن گزشتہ چند برسوں سے اس کمیٹی کی جانب سے اختیارکردہ خاموشی کے سبب خانگی اسکولوں بالخصوص نامور کارپوریٹ اسکولوں کی فیس میں بے تحاشہ اضافہ کئے جانے کا خدشہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ خانگی اسکولوں کی جانب سے آئندہ تعلیمی سال کے آغاز پر سالانہ فیس میں 50% تک کا اضافہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں اولیائے طلبہ کی تشویش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن ضلع کلکٹر کی نگرانی میں قائم کی گئی کمیٹی کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جارہا ہے۔
خانگی اسکولوں کی بڑی تعداد کی جانب سے حکومت ہند کی جانب سے منظورہ قانون حق تعلیم پر عمل آوری کو یقینی بنانے کے سلسلہ میں تو کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں جس سے غریب طلبہ کا فائدہ ہو لیکن اس کے ساتھ فیس میں کئے جانے والے بے تحاشہ اضافہ کے سبب متوط طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی تعلیم کا سلسلہ بھی دشوار کن مراحل سے گزر رہا ہے۔ شہر کے بعض مخصوص اسکول و تعلیمی ادارے ایک مخصوص طبقہ کی حد تک محدود ہوچکے ہیں۔ چونکہ ان تعلیمی اداروں میں متوسط طبقہ کے طلبہ کو داخلہ حاصل ہونا بھی دشوار ہوتا جارہا ہے اور اگر داخلہ مل بھی جائے تو اولیائے طلبہ اضافہ شدہ فیس کی ادائیگی سے قاصر ہیں
چونکہ موجودہ مہنگائی کے دور میں بہتر تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانا ہی اولیائے طلبہ کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ خانگی تعلیمی ادارے تجارتی اداروں کی طرح فیس میں اضافہ کو اپنا حق تصور کررہے ہیں۔ خانگی اسکول انتظامیہ کے ایک ذمہ دار نے اس بات کا اعتراف کیاکہ یقینا حالیہ عرصہ میں فیس کے بوجھ میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوا ہے لیکن تعلیمی اداروں کے اخراجات میں ہونے والے اضافہ کے سبب یہ صورتحال پیدا ہورہی ہے۔ اُنھوں نے مزید بتایا کہ بعض طلبہ کی جانب سے فیس کی عدم ادائیگی کے سبب اس کے اثرات دیگر طلبہ پر مرتب ہورہے ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ تقریباً 10 فیصد اولیائے طلبہ اپنے بچوں کی فیس بروقت ادا نہیں کرتے جس کے سبب تعلیمی ادارے بھی معاشی خسارے کا شکار رہتے ہیں۔
خانگی اسکول انتظامیہ کے ان دعوؤں کے برعکس اولیائے طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ اسکول انتظامیہ کی جانب سے اگر تین ماہ تک فیس ادا نہیں کی گئی تو بچوں کو کس طرح کی سزائیں دی جارہی ہیں وہ خبریں آئے دن اخبارات میں شائع ہورہی ہیں۔ اس کے بعد اسکول انتظامیہ کے ذمہ داران کی جانب سے یہ کہا جانا درست نہیں ہے کہ اولیائے طلبہ فیس ادا نہیں کرتے۔ اُنھوں نے مزید کہاکہ کئی کارپوریٹ طرز کے اسکول اپنی فیس کے تعین کے بعد ریگولیٹری اتھاریٹی سے منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں جس سے ضلع کلکٹر کی زیرنگرانی تشکیل دی گئی کمیٹی کا کردار بھی مشتبہ ہوتا جارہا ہے۔
معیاری تعلیمی اداروں کے نام پر جو لوٹ کھسوٹ کی جارہی ہے اس سے اولیائے طلبہ پریشان ہیں لیکن بحالت مجبوری جو لوگ فیس ادا کرنے کے متحمل ہیں وہ ادا کررہے ہیں جبکہ جو لوگ بھاری فیس ادا کرنے سے قاصر ہیں وہ اپنے بچوں کو ان اسکولوں سے نکالنے پر مجبور ہیں۔ ضلع کلکٹر بالخصوص اگر محکمہ تعلیم کے عہدیدار رشوت سے پاک محکمہ کو یقینی بناتے ہوئے تعلیم کی فراہمی کی سرکاری ذمہ داری کو محسوس کرنے لگ جائیں تو یقینا نہ صرف خانگی اسکولوں کی من مانی پر کنٹرول کو یقینی بنایا جاسکتا ہے بلکہ سرکاری اسکولوں کی حالت کو بہتر بناتے ہوئے عوام کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ حاصل کرنے کی سمت بھی راغب کیا جاسکتا ہے۔
فیس ریگولیٹری اتھاریٹی کی جانب سے جس وقت پہلی مرتبہ فیس کے پیمانے مرتب کئے گئے تھے اس وقت ہی اس پر کافی اعتراضات کئے گئے لیکن ان اعتراضات کو نظرانداز کرتے ہوئے اولیائے طلبہ پر زبردست بوجھ عائد کردیا گیا اور اب ان فیسوں میں تقریباً 50 فیصد اضافہ کے منصوبہ کے ذریعہ اولیائے طلبہ کو مزید معاشی پریشانیوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ محکمہ تعلیم سے وابستہ ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ جو فیس فی الحال خانگی اسکولوں میں وصول کی جارہی ہے وہ ہی کافی زیادہ ہے لیکن اب دوبارہ اس میں اضافہ عوام کے لئے وبال جان ثابت ہوگا۔ اُنھوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے سخت ہدایات کی اجرائی کی صورت میں ہی اسکولوں میں یکساں فیس مقرر کئے جانے کے عمل کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیاکہ موجودہ نظام تعلیم سے طلبہ میں دو علیحدہ طبقات بن رہے ہیں جوکہ مستقبل کے لئے قطعی بہتر نہیں ہے۔ جب تعلیمی اداروں سے ہی طبقاتی نظام پنپنے لگے اور غریب و امیر کا فرق کیا جانے لگے تو پھر سماج سے اس بُرائی کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے۔