اِنسانی جذبہ کی ضرورت

آفات سماوی میں یہی درد کا رشتہ
خانوں میں بٹے لوگوں کو انسان بنادے
اِنسانی جذبہ کی ضرورت
سمندری طوفان ہدہد سے ساحلی آندھرا میں ہونے والی تباہی ہر تین سال میں ایک مرتبہ طوفانی و سماوی خطرات کا تسلسل ہے۔ سائنسی ترقی نے اس مرتبہ اگرچیکہ انسانی جانوں کے نقصانات کم کئے ہیں مگر انفراسٹرکچر کی تباہی پہلے سے کہیں زیادہ بتائی جارہی ہے۔ آندھرا پردیش اور اڈیشہ میں فوت ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں حکام واضح ریکارڈ نہیں رکھتے لیکن تباہ کاریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ طوفان کی شدت زیادہ تھی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے طوفان سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے اور امدادی اقدامات پر توجہ دی ہے۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو کو اپنی ابتدائی حکمرانی میں ہی کئی مسائل کا سامنا ہے۔ طوفان کی تباہ کاریوں نے اس ریاست کے نظم و نسق کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مرکز سے امداد کی رقم پہونچنے تک متاثرین کا کیا حال ہوگا، یہ ہر انسانی دل رکھنے والوں کو احساس ہوگا۔ مرکز کی امداد ہو یا ریاستی نظم و نسق کے حفاظتی اقدامات، تباہی کا سامنا تو عوام کو کرنا پڑتا ہے۔ طوفان کے بعد کے حالات سے نمٹنے میں نظم و نسق کی تاخیر سے تعفن پھیلتا ہے اور امراض کا سلسلہ عوام کے لئے جان لیوا بن جاتا ہے۔ مرکز کی امداد کس حد تک پہونچتی ہے، ہر سانحہ یا واقعہ کے بعد عیاں ہوتی ہے۔ جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور اترانچل میں حالیہ تباہی کے بعد مرکز نے کچھ نہیں کیا اور جو کچھ امداد کا اعلان کیا گیا، اس کی رقم پہونچی نہیں یا پہونچی تو یہ ناکافی ثابت ہوئی۔ آندھرا پردیش اور اڈیشہ میں آئی تباہی کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کو ہر ممکنہ مدد کرنے کا اعلان کیا جانا چاہئے۔ اس سانحہ کے پیش نظر پڑوسی ریاست کی حیثیت سے تلنگانہ نے بھی اپنی جانب سے ممکنہ تعاون کی پیشکش کی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی نئی ریاست کے مالیہ کے مطابق مقدور بھر امداد دینے کی کوشش کی ہے تو ہمسایہ ریاست کے جذبہ کی قدر کی جانی چاہئے۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش کو اس وقت ہر قدم پر امداد کی ضرورت ہوگی۔ ہندوستان میں طوفان و سیلاب کے سانحات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جموں و کشمیر کے حالیہ سیلاب سے نمٹنے کے لئے فوج اور مقامی عوام نے جس جرأت مندی کا اظہار کیا ہے، یہ تمام ملک کے عوام کیلئے ایک قابل تقلید کوشش ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آندھرا پردیش اور اڈیشہ میں عوام کے اندر اس جذبہ کا فقدان دیکھا گیا ہے۔ اس سانحہ کی گھڑی میں عوام اور سیاست دانوں کو ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ کشمیر کے سیلاب کے بعد وہاں کے ہر ایک مقامی شہری نے توقع کے برعکس ایک دوسرے کی مدد کی۔ کئی مالکین نے اپنی کشتیاں مفت فراہم کی تو دکان داروں نے غذا کی تقسیم کے لئے گودام کھول دیئے تھے۔ ایسی خبروں سے سارے ملک کو ایک جذبہ حاصل ہونا چاہئے کہ برے وقت میں ایک دوسرے کی مدد سے ہی تباہی و نقصانات کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے، حکومتوں پر اکتفا کرنے سے انسانی زندگیوں کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نظم و نسق کی لاپرواہی سے ہونے والی تباہی پر ماتم کرنے کے بجائے انسانی امداد کے لئے جب دوسرے انسانوں کا قدم اُٹھتا ہے اور دست تعاون بڑھتا ہے تو تباہی و سانحات کا شدید احساس کافور ہوجاتا ہے۔ وشاکھاپٹنم ہو یا اڈیشہ کے ساحلی اضلاع کے عوام کے ساتھ ماباقی دنیا کے لوگوں کی ہمدردیاں تو کافی ہیں۔ ان کی مدد اس وقت ممکن ہے جب ہر کوئی اپنی جانب سے کچھ نہ کچھ تعاون کا قدم اٹھائے اور اس سلسلے کو منظم طریقے سے جاری رکھا جائے تو امداد کی شکل میں جو رقم جمع ہوگی وہ آئندہ کام آئے گی۔ ہر ریاست اور مرکز میں آفات سماوی سے نمٹنے کے لئے ریلیف فنڈس قائم کئے گئے ہیں لیکن ان میں عوام کا تعاون توقع کے مطابق نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیراعظم ریلیف فنڈ ہو یا چیف منسٹرس ریلیف فنڈ میں عوام الناس کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ خانگی سطح پر بھی کئی تنظیمیں اور رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے ادارے ہیں جو نازک گھڑی میں انسانوں کی مدد کرتے ہیں۔ انہیں بھی عوام کے عطیہ جات وصول ہوتے ہیں تو یہ انسانی خدمت کے ہی کام کریں گے لہذا عوام الناس کو ہر گھڑی اپنی بے جا معیارات والی زندگیوں میں کچھ پس انداز کرکے امداد کی جانب توجہ دیں تو ہر تنظیم اور ہر ادارہ کے لئے بس امداد کی شکل میں کثیر فنڈ جمع ہوجائے گا جو قدرتی آفات و دیگر سانحات سے نمٹنے اور انسانوں کی مدد کے کام آئے گا۔ اس لئے ہم میں سے ہر ایک کے اندر انسانی جذبہ پیدا ہوجائے تو وہ بلاشبہ روزمرہ زندگی کے فضول اخراجات کو ترک کرکے اس رقم کو ریلیف فنڈ کے لئے جمع کروائیں تو ان کا یہ عطیہ کئی غم زدہ خاندانوں کے آنسو روکنے میں مدد کرسکتا ہے۔